عدم برداشت کا بڑھتا رجحان، گستاخی اور ہمارا معاشرہ
زرا سی بات پر غداری کے سرٹیفکیٹ تو ملتے ہی تھے اب کافر، ملحد اور مرتد کی سند تھماکر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے
عدم برداشت اور ہٹ دھرمی بمع شدت پسندی جس انداز سے معاشرے پر غالب آ چکی ہے، اس کے بعد ضروری ہے کہ ہر مذہبی بحث سے گریز کیا جائے
ورنہ خدا جانے اگر سامنے والے کے ہاتھ میں چھری ہو تو وہ وہی آپ کے سینے میں گھونپ دے یا پستول ہو تو گولی مار دے اور اس سب کے بعد ایک جاہلین کا ایک ہجوم اسے کندھوں پر اٹھائے پھرے جبکہ مقتول کو دفن ہونے کے لیے دو گز جگہ بھی نہ ملے۔
کسی جاہل کی جہالت اس وقت مزید شدت اختیار کرتی ہے جب اسکے سامنے دلیل پیش کی جائے، حقائق رکھے جائیں اور اس کے ذاتی نظریہ سے ایک لحظہ کو بھی اختلاف کیا جائے۔
لاجواب ہوتے ہوئے ایسا شخص دنیاوی معاملات میں بھی مرنے مارنے پر اتر آتا ہے, کجا کہ بحث مذہبی ہو۔
شدید خوفزدہ کردیا ہے آج قائد آباد کے واقعہ نے۔ یوں تو کچھ عرصہ سے عادت بنا رکھی ہے کہ عموماً لوگوں کی فہم دیکھ کر ہی بات کرتی ہوں، اور کسی بھی قسم کی بحث سے گریز کرتی ہوں
کیونکہ ہر دوسرا شخص اپنی عقل کے محدود ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہوتا ہے، جس سے وہ باہر نہیں نکلنا چاہت ۔ نہ کسی کی سننا چاہتا ہے، لیکن پھر بھی کسی وقت کوئی بات زیادہ ہی مزاج پر گراں گزرے یا حقائق کو اذیت کی حد تک مسخ کیا جارہا ہو تو کچھ بحث مباحثہ ہو بھی جاتا ہے۔
لیکن آج جس طرح گارڈ نے بینک مینیجر کے سینے میں گولیاں اتار دیں، اس نے مجھے شدید خوفزدہ اور محتاط کردیا ہے۔
سوچنے والوں، پرکھنے والوں اور ٹھوک بجا کر تسلیم رضا کرنے والوں کو اب پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوں گے۔ زرا سی بات پر غداری کے سرٹیفکیٹ تو ملتے ہی تھے اب کافر، ملحد اور مرتد ہونے کی سند سے نواز کر ساتھ ہی موت کے گھاٹ بھی اتار دیا جاتا ہے۔
جلد انصاف تو خیر ہمارے معاشرے میں ویسے ہی ناپید تھا، لیکن ایسے کیسز کو جس طرح گلیمرائز کیا جارہا ہے، یہ واقعی لمحہ فکریہ ہے۔ لیکن کس کے لیے؟
ان حالات اور ایسے واقعات کا سدباب تو ارباب اختیار کو ہی کرنا ہے لیکن عوام کو اپنے اذہان میں وسعت اور دل و دماغ میں برداشت پیدا کرنا ہو گی۔ عدم برداشت کا کلچر سوائے قتل و غارت کے ہمیں کچھ نہیں دے پائے گا۔