Ultimate magazine theme for WordPress.

ابن بطوطہ کا حیران کن خواب اور شیخ المرشدی کی تعبیر Ibn Battuta

ابن بطوطہ نے پہلے سفر کا آغاز تعبیر کے مطابق حج مبارک سے کیا، پھر سیاحت کا یہ سفر زندگی بھر جاری رہا

315

تحریر: محی الدین چودھری Ibn Battuta

ابن بطوطہ  سیاحت کی تاریخ کے ایک بے مثال ستارے تھے۔ ان کا پورا نام محمد بن عبداللہ ابن بطوطہ تھا۔ وہ مراکش کے مشہور قصبہ تنجیر کے رہنے والے تھے اور انہوں نے 1325 عیسوی میں اپنے سفر کا آ غا ز تنجیر ہی سے کیا۔ ان کا ارادہ سب سے پہلے مکہ مکرمہ جاکر حج کی سعادت حاصل کرنے کا تھا۔وہ اپنے سفر کے دوران مقامات مقدسہ کے علاؤہ مصر، شام، عراق اور خوارزم کے علاقوں سے بھی گذرے۔ اس کے بعد مشرقی افریقہ کی مسلمان ریاستوں کا بھی سفر کیا اس کے علاؤہ انہوں نے ساحلی علاقوں یمن اور اومان کی بھی سیر کی۔ پھر انہوں نے ایشیائے کوچک ۔یوکرین، اور ارد گرد کے منگول علاقوں کا بھی رخ کیا۔

قسطنطنیہ اور دلی کا سفر Ibn Battuta

اسی سیاحت کے دوران انہوں نے استنبول بھی دیکھا، اس وقت تک استنبول ( قسطنطنیہ) رومن سلطنت کا دارلحکومت تھا۔ اس کے بعد ابن بطوطہ نے ہندوستان کی سیاحت کا پروگرام بنایا۔ وہ ایران میں سے ہوتے ہوئے براہ افغاانستان ، ملتان پونچہے اور پھر وہاں سے سلطان محمد تغلق کے عہد میں دہلی پونچہے۔ کچھ عرصہ یہاں قیام کے بعد سلطان تغلق نے ابن بطوطہ کو ایک سفارتی مشن دے کر چین روانہ کیا۔ مگر چین جانےوالے جہاز کی تباہی کی وجہ سے وہ جنوبی ہندوستان ہی میں پھنس کر رہ گئے۔مگر اسی دوران انہوں نے مالابار کے علاؤہ مالدیپ اور سیلون کی سیاحت بھی کی۔

اندلس اور افریقہ کا سفر Ibn Battuta

دہلی سے کمک آنے کے بعد انہوں نے براہ جاوا اور سماٹرا ،چین کا سفر کیا۔واپسی پر انہوں نے دہلی کے بجائے شام کا سفر کیا ۔ اس کے بعد ابن بطوطہ اندلس پونچہے۔ اور اندلس سے نائیجر اور مالی کے لئے عازم سفر ہوئے ۔ اس طرح ایک ایسے زمانے میں انہوں نے تقریباً 76 ہزار میل کا سفر کیا ، جب رسل ورسائل کے ذرائع بہت محدود تھے۔۔ بعد میں انہوں نےشاہی حکم پر ، مراکش میں اپنی یاداشتیں مراکش کے سلطان کے سیکرٹری ابن جوزی کو لکھوائیں،جنہوں نے اس سفرنامہ کو ایک عظیم عربی کتاب کی صورت دی۔ یہ کتاب بھی اسی عربی کتاب سے ما خوذ ہے۔ جو ابن جوزی نے مرتب کی تھی۔

مقدس مقامات سے سفر کا آغاز

ابن بطوطہ نے اپنے سفر کا آغاز 21 رجب 725 ھجری میں مراکش کے قصبے تنجیر سے کیا، جو ان کا جائے پیدائش بھی تھا۔ ان کی عمراس وقت صرف 21 سال تھی مگر ولولے اور ارادے بہت پختہ تھے۔ ان کے سفر کا پہلا مرحلہ سفر حج کا قصد تھا، وہ مقدس مقامات جا کر پہلے حج کا فریضہ ادا کرنے کے خواہ شمند تھے۔اور پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس پر حاضر ہونا تھا۔

والدین سے جدائی شادی اور طلاق

اس سفر پر روانہ کرتے ہوئے ان کے والدین بھی دل گرفتگی میں مبتلا تھے۔ والدین سے پہلی مرتبہ جدائی پیدا ہو رہی تھی اس لئے روانگی کے وقت ماحول بہت افسردہ تھا۔ حاجیوں کا قافلہ قبیس کی جانب روانہ ہوا اس دوران فافلہ کو سخت بارشوں اور طوفان کا سامنا کرنا پڑا ۔ قافلہ نے قبیس میں قیام کے بعد طرابلس کا رخ کیا۔ اسی دوران ابن بطوطہ نے تیونس کے ایک سردار کی بیٹی سے نکاح کیا مگر سردار کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کی وجہ سے جلد ہی اس کی بیٹی کو طلاق دے دی۔ اس کے بعد ابن بطوطہ نے فیض کے ایک عالم کی بیٹی سے دوران سفر، نکاح کر لیا اور سارے قافلے کی ضیافت بھی کی۔ اس قافلہ کا بخیرو خوبی سفر جاری رہا اور قافلہ بحفاظت مصر کی حدود میں داخل ہو گیا۔

اسکندریہ اور مصر کے دوسرے علاقوں کی سیر

15 اپریل 1326 کو ابن بطوطہ کا قافلہ اسکندریہ میں خیمہ زن ہوا۔ ابن بطوطہ نےاس شہر کی بہت تعریف کی ھے۔ اس شہر میں داخلہ کے لئے صرف چار بڑے دروازے تھے اور پورا شہر بہت مظبوط قلعے کے اندر آباد تھا۔ اسکندریہ کی بندرگاہ بہت عظیم الشان تھی۔ اور اس کا مقابلہ کسی بھی بڑی بندر گاہ سے کیا جا سکتا تھا۔ ابن بطوطہ اسکندریہ کے عظیم لائٹ ہاؤس کو دیکھنے گئے۔ اس زمانہ میں اس عظیم لائٹ ہاؤس کی ایک سمت رومن جنگی جہازوں کی بمباری سے تباہ ہو چکی تھی۔

اس کی عمارت زمین سے کافی بلند تھی۔ ابن بطوطہ اس چوکور عمارت سے کافی ۔متاثر ہوئے۔ جب ان کی ملاقات اسکندریہ کے قاضی سے ہوئی تو وہ ان کی عظیم الجثہ پگڑی سے بہت متاثر ہوئے۔ ابن بطوطہ کے مطابق اس انداز کی اور اس قدر بڑی پگڑی انہوں نے زندگی بھر کہیں نہ دیکھی۔ اسکندریہ کے قیام میں ابن بطوطہ نے مختلف اہل طریقت اور اہل شریعت سے ملاقات کی۔ ایک مشہور اہل اللہ سے ملاقات کے دوران انہیں خوشخبری ملی۔

شیخ المرشدی سے ملاقات

اس بزرگ کا نام برہان الدین تھا انہوں نے ابن بطوطہ کو بتایا” تم سیرو سیاحت کے دلدادہ ہو، تم جب ہندوستان اور چین جاؤ تو میرے بھائی رکن الدین سے ملنا وہ سندھ میں مقیم ھے اور میرے بھائی برہان الدین سے جو چین میں ہے ضرور ملاقات کرنا۔ اور میرا سلام کہنا” ابن بطوطہ دل و جان سے مکہ اور مدینہ کے مسافر تھے۔مگر اب وہ یہ پیشین گوئی سن کر کافی حیران ہوئے۔ اسی دوران ان کو شیخ المرشدی کے بارے میں اطلاع ملی۔وہ شہر سے باہر قیام پزیر تھے۔

ابن بطوطہ کو امامت کی دعوت

ابن بطوطہ شیخ سے ملنے شیر سے باہر قصبہ فوا پونچہے۔ ایک نہر قصبے کے ساتھ بہتی تھی اور نہر کے پار شیخ المرشدی کا حجرہ تھا۔ شیخ المرشدی بہت تپاک سے ملے، معانقہ کیا اور کھانے میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ جب نماز کا وقت آیا تو شیخ المرشدی نے ابن بطوطہ کو امامت کی دعوت دی۔ نماز کے بعد ابن بطوطہ کو تھکا ہوا دیکھ کر شیخ نے انہیں حجرہ کی چھت پر جاکر آرام کرنے کا مشورہ دیا۔ وہ چھت پر گیے تو وہاں سرکنڈے کی ایک چٹائی اور ایک مصلیٰ موجود تھا، وضو کے لیے پانی بھی موجود تھا۔ ابن بطوطہ اس چٹائی پر لیٹ گئے اور نیند کی وادیوں میں کھو گئے۔

پرندے پر سواری

نیند کے دوران ابن بطوطہ نے ایک خواب دیکھا کہ وہ ایک دیو قامت پرندے پر سوار اڑ رہے ہیں۔ وہ پرندہ مکہ مکرمہ کی طرف رواں ہے۔ پھر وہ یمن کی طرف مڑ گیا۔اس کے بعد اس کا رخ مشرق کی طرف مڑ گیا۔اور آخرکار وہ ایک ہرے بھرے علاقہ میں اترا ،اور ا بن بطوطہ کو چھوڑ کر اڑ گیا۔ اسکے بعد ابن بطوطہ کی آنکھ کھل گئی۔ دوسری صبح ابن بطوطہ نے شیخ المرشدی سے اس خواب کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے فرمایا ” تم حج کرو گے اور روضہء رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کرو گے تم یمن ،عراق ۔ ترکستان سے ہوتے ہوئے ہندوستان بھی جاوء گے اور وہاں کافی عرصہ قیام ہو گا, وہاں تمہاری ملاقات میرے بھائی دلشاد سے ہو گی اور وہ تمہیں خطرات سے بچائے گا” اس کے بعد ابن بطوطہ نے رخصت طلب کی تو شیخ المرشدی نے انہیں کافی زیادہ زادراہ اور تحائف دے کر رخصت کیا،اور دعا بھی دی کہ آئندہ سفر خوشگوار ہو۔
(جاری ہے۔)

Gulsim Ali

Leave A Reply

Your email address will not be published.