یہ آنکھیں پوچھتی ہیں !!
دنیا کی بہترین ایجنسیاں، قابل فخر فوج، صادق اور امین حکمران! پھر بھی یہ آنکھیں سراپا سوال ہیں!
تحریر: ریاض بیگ راج
دیکھ تو نہیں سکتیں۔ کسی کو یہ چمک دار آنکھیں بند کرنے کی فرصت ہی نہیں ملی۔ یہ جو معصوم سی آنکھیں مجھے اور آپ کو دیکھے جارہی ہیں یہ بالکل میرے اور آپکے لخت جگر کی طرح ہیں۔ بڑی ہی پیاری ہیں۔ یہ رو نہیں رہیں۔ سارے آنسو تو خون میں بہہ چکے۔ یہ زندہ تھوڑی ہیں۔ مردہ آنکھیں بھی سوال کرتی ہیں۔ یہ سوال تیر کی طرح دل میں اترتے ہیں۔ صرف ایک چھوٹا سا سوال کہ "میرا جرم کیا ہے ؟””
کیا اس ملک میں پیدا ہونا میرا جرم ہے، کیا غریب کے گھر پیدائش جرم ہے، کیا مدرسے میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنا جرم ہے، کیا پشتون ہونا جرم ہے۔ کوئی تو بتائے کہ میرا جرم کیا ہے؟ کیا ہوسکتا ہے میرا جرم؟ لیکن کوئی جواب نہیں دیتا۔ اے پی ایس کے بچوں کے سوال بھی بغیر جواب قبروں میں اتر گئے۔ کیا دہشت گرد اس بچے نے بنائے تھے۔ کیا اس نے کسی کے چیتھڑے اڑائے تھے؟ کیا یہ بچہ امریکہ کا ہے؟ کیا یہ بچہ بھارت کا ایجنٹ ہے؟
یہ دہشت گرد کون بناتا ہے؟ ان کی تربیت کہاں ہوتی ہے؟ یہ دھماکہ کیوں کرتے ہیں؟ باڑ لگ گئی، علاقہ غیر اپنا ہوگیا، دہشت گردوں کے سب ٹھکانے تباہ کردیے گئے۔ پیغام پاکستان پر ہر فرقے کے علماء نے سلیم قلب سے دستخط کردیے۔ پھر بے گناہ لوگ کیوں مار دیے گئے؟
دنیا کی بہترین ایجنسیاں، قابل فخر فوج، صادق اور امین حکمران۔ پھر میرے وطن کے سجیلے جوان دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ گئے، معصوموں کی آنکھیں پتھرا گئیں۔ سراپا سوال بن گئیں۔
نفاق! سب سے بڑا جرم نااتفاقی۔ قوموں کو نفاق کی سزا مل کر رہتی ہے۔ ہمیں بھی مل رہی ہے۔ ہم اناؤں کے اسیر ہوگئے۔ دہشت گرد ہمارے بچوں اور جوانوں کو اڑائے جارہے ہیں۔ چالیس ہزار جانیں پہلے گنوائیں۔ سولہ ہزار جوان، آفیسر شہید کروائے۔ اربوں ڈالر ملکی معیشت کو نقصان ہوا۔ سبق نہیں سیکھا اور اب پھر لاشیں گن رہے ہیں۔ باہمی انتشار اور ہوس اختیار نے ہمیں بے اختیار کردیا۔ اب تو ہم کسی کی جنگ بھی نہیں لڑرہے، پھر یہ جنگ کیوں ہے؟
یہ چشم بے آب پوچھتی ہیں، کہ انکل آپ متحد کیوں نہیں ہوتے؟ آپ آپس میں لڑتے کیوں رہتے ہیں؟ جب سب کو پہلے سے علم ہوجاتا ہے کہ دہشت گرد آئیں گے تو آپ مل کر ان کو ختم کیوں نہیں کردیتے؟
یہ آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں، لیکن سوال تو کرسکتی ہیں!!