حسن مجتبیٰ یا حسن کوزہ گر: سجاد اظہر کا کالم
وہ لعل شہباز قلندر کی دھرتی کا مست قلندر ہے، اگر اسے جلا وطنی کا زہر نہ دیا گیا ہوتا تو وہ پاکستان کا خوشونت سنگھ بنتا ، گلزار بنتا ،لیکن جلا وطنی نے اسے محض وقائع نگار بنا کر رکھ دیا ہے۔
ایسا وقائع نگار جس کی خبریں بی بی سی بھی سینسر کر کے چھاپتی رہی اور پھر ایک دن اس نے تنگ آ کر بی بی سی کو بھی خیرآباد کہہ دیا۔
وہ نیوزلائن میں تھا تو خبروں کی لائنوں سے بہت آگے کا سفر طے کر چکا تھا ۔یہ آگہی جو صوفی روایت سے چلی اور عسکری روایتوں میں ایسی پھنسی جیسے رضیہ غنڈوں میں پھنس جاتی ہے تو حسن مجتبیٰ باغی ہو گیا اور باغیوں کی منزل یا سر قلم ہوتی ہے یا ہاتھوں میں قلم رکھنا ہوتا ہے ۔ حسن مجتبیٰ نے قلم پکڑنے کا حق ادا کیا ہے ،بینظیر کی شہادت پر اس کی نظم ” وہ لڑکی لعل قلندر تھی ” بہت مشہور ہوئی:
تم خاکی وردی والے ہو
یا کالی داڑھی والے ہو
تم نیلے پیلے اودے ہو
یا گورے ہو یا کالے ہو
تم ڈاکو چور لٹیرے ہو
یا قومی غنڈے سالے ہو
اپنے اور پرائے ہو
یا اندھیاروں کے پالے ہو
حسن مجتبیٰ کی شاعری
میرے سامنے حسن مجتبیٰ کی نظموں کی کتاب ” تم دھنک اوڑھ لینا ” پڑی ہے ۔ ایسی ایسی غیر روایتی نظمیں لکھ ڈالی ہیں کہ یہ کتاب اردو نظم میں ایک نئی دور کی عکاسی کرتی ہے ۔ حسن مجتبیٰ ففتھ ایونیو پر نظمیں لکھتا ہے مگر پھر بھی حیدر آباد پریس کلب کی رُ تیں اس کے خون میں سرایت کی ہوئی ہیں۔
ایک نظم ایک پرانی دوست میں حسن کہتا ہے۔
وہ ساون میں حیدر آباد پریس کلب کے راستوں پر پڑی بارش کی خوشبو
اور بسنت ہال کے درختوں میں چھپی کوئل کی آواز جیسی ہے
یا پھر دوسری نظم ” ماضی کے مزاروں سے ملیں ” کا ایک بند
سوکھے ہوئے پھولوں کو کتابوں میں لئے
عشق نصابوں میں لئے
دور کہیں دور اسی دیس میں رہنے والے
بچھڑے ہوئے یاروں سے ملیں
آؤ ماضی کے مزاروں سے ملیں
سبین محمود کے نام ایک نظم ” بول کہ لب آزاد نہیں ہیں ” کا بند دیکھیں۔
بول کہ اک پلڑا ہے جس میں
بھاری بھرکم بوٹ پڑے ہیں
اس میں سارے جھوٹ پڑے ہیں
گلزار پر لکھی گئی ان کی نظم ہجر کے ا ُس کرب کو لئے ہوئے ہے جس کا دکھ حسن مجتبیٰ جیسا تارک وطن ہی سمجھ سکتا ہے ، اسی طرح ملالہ یوس زئی کے نام لکھی گئی نظم کا ایک ایک جملہ ہی شاہکار ہے :
یہ دہشت گرد شہزادے یہ تاریکی کے پیغمبر
یہ کہتے ہیں کہ ان کے سارے کام غازیانہ ہیں
حقیقت میں یہ تہذیبوں کے منہ پر تازیانہ ہیں
یہ دین ملا فساد فی سبیل اللہ
نظام عدل ان کا غاصبانہ ہے

"غزہ کے بچوں پر رونے والو” در اصل پورے ریاستی بیانئے کے منہ پر تمانچہ ہے ۔ گذشتہ دنوں میں میرا لاہور جانا ہوا ایک بڑے صنعتکار نے مجھ سے سیاسی حالات پر سوال کئے اور میرے جواب سن کر کہنے لگا کہ اور کوئی رہے نہ رہے ہمارا لاہور اسی طرح رہے گا ، حسن مجتبیٰ نے ملکی اشرافیہ جو دراصل لاہور کی اشرافیہ ہے کے بارے میں ایک پوری نظم لکھی ہے۔
ترے پایہ تخت تلے
نہ جانے لہو کتنوں کا
میرے جتنوں کا شامل ہے
وہ جو تیرے شاہی قلعے کو فتح کر آئے
زندہ ہیں کہ مردہ
اس سے کیا فرق پڑتا ہے
زمانہ کس تیزی سے بدل رہا ہے اور انسان پر اس سے مطابقت کی دوڑ میں کیا بیتتی ہے ؟حسن مجتبی ٰ کی ایک مختصر نظم ملاحظہ ہو۔
ویسٹ ویلیج کےاس فٹ پاتھ پر رکھے پرانے ریکارڈوں میں
میرا بجتا ہوا زمانہ ہے
اور میں ایک بھولا ہوا پا سورڈ
پوٹھوہار میں جب بہار آتی ہے تو بھنگ کی بھینی بھنی خوشبو بھی اس میں شامل ہو کر انسان کو مست الست کر دیتی ہے ۔حسن مجتبی ٰ پوٹھوہار میں تو نہیں رہا مگر نیویارک میں میری وانا کی خوشبو اسے اسی طرح مست رکھتی ہے ؟
شام کو
نیویارک شہر میں
میری وانا کی خوشبو جیسی
تیری یاد
میری اور حسن کی دوستی اس وقت سے ہے جب ہم اقوامِ متحدہ ہیڈ کوارٹر میں پاکستانی اور بھارتی لیڈروں کی ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازیاں سننے کی بجائے کرنل قذافی اور ہو گو شاویز کی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف طویل تقریریں سننے کے لئے گھنٹوں بیٹھے رہتے ہوگوشاویز جیسے ہی اقوام متحدہ سے نکلے ان سے ایک خاتون لپٹ گئی ہوگوشاویز اتنا طاقتور تھا کہ اسے دونوں ہاتھوں سے اٹھا لیا۔
ہر طرف شاویز شاویز کے نعرے لگنے لگے میں اور حسن بھی ہجوم میں شامل ہو گئے ۔خلیل جبران جس کی تحریروں میں بیروت ایک عشق بن کر موجزن ہے وہ نیویارک کی بروکلین بورو میں طویل عرصہ رہا مگر اس کی شاعری میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف احتجاج نہیں ملتا جس کو حسن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے”۔
خیل جبران تیرا بیروت گولی بن کر
میرے دل میں پیوستہ ہے
اور میں تجھے اوشو کی آنکھوں سے
نیویارک میں ڈھونڈتا ہو ں
ایک اور مختصر نظم میں ملا اور پروہت پر کیا طنز کیا ہے۔
مندر کی گھنٹیاں
پروہت پر ہنستی ہیں
اور آذانیں ملاں پر
روتی ہیں
واصف علی واصف نے کہا تھا کہ ہر نیا آنے والا بچہ جس یقین سے دنیا میں آتا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ خدا ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا ۔ حسن نے اس کا جواب اس نظم میں دیا ہے :
فجر کے بعد نمازیوں نے
مسجد کی چوکھٹ پر پڑے ملے
نوزائیدہ کی چیخ پر
اپنے اپنے ہاتھ میں
پتھر اٹھا لئے
گردیو جی !
خدا انسان سے کب کا مایوس ہو بھی چلا
کچھ ماہیئے اور نظمیں انہوں نے اپنے دوست محمد حنیف کے نام کی ہیں۔
انجمن ِ قاتلان شب ہیں ہم لوگ
صبح ہو گی تو ہم نہیں ہوں گے
کتاب میں غزلیں اور پنجابی نظمیں بھی ہیں ۔حسن مجتبیٰ بھی در اصل حسن کوزہ گر ہے ۔زندگی کی صراحیاں بناتے بناتے اس پر کیا بیت رہی ہے جہاں زاد کواس سے غرض نہیں مگر وہ جہاں زاد سے پھر بھی مخاطب ہے ۔صحرا میں دی گئی آذان کی طرح اور نیویارک میں بولی جانے والی بھانت بھانت کی بولیوں میں چھپے ہیجان کی طرح۔
وہ وقائع نگار کی قلم سے حالات حاضرہ لکھتا ہے ، شاعر کی آنکھ سے دنیا کو دیکھتا ہے اور ایک مؤرخ کے زاویئے سے تہذبوں کو ابھرتے اور ڈوبتے دیکھتا ہے اس کے سینے میں جو طلاطم ہے ا س سے ہمیں مستقبل میں کئی اور شاہکار دیکھنے اور پڑھنے کو ملیں گے۔
کاش وہ اسلام آباد آ سکتا تو میں اسے نیویارک کی ماریوانا کی بجائے بھنگ پلاتا اور اسی نشے میں ہم دونوں قصور کے بلھے شاہ جاتے ، کوٹ مٹھن کے خواجہ غلام فرید جاتے ، جھنگ کے سلطان باہو جاتے، قصور کے بابا فرید جاتے ، جھنگ کے سلطان باہو سے ہوتے ہوئے لعل شہباز قلندر کے سیہون تک مست الست جاتے اور رقص درویش کرتے ، بلھیا میں کی جانا میں کون ؟
اگر کسی کو ہونے کا یقین ہے تو وہ صرف ظاغوت ہے ،باقی سارے درویش تو ہونے اور نہ ہونے کے درمیان ہی کہیں گم ہیں حسن مجتبیٰ کی کتاب ” تم دھنک اوڑھ لینا ” کی نظموں کی طرح