
سب سے زیادہ چیخنے والے تماشائی کو ڈرامے کے ڈاٸیلاگ کی سمجھ آتی اور نہ ہی مفہوم کی: عرفان خان سدوزٸی کا کالم غداری کا تماشا!
پاکستان میں جب سیاستدان مخالفت پہ آتے ہیں تو انتہاٸی آسانی سے ایک دوسرے کے خلاف بھارت ، امریکہ اور اسراٸیل کے ایجنٹ ہونے کے الزامات لگا دیتے ہیں لیکن کیا جلسے جلسوں میں الزامات لگانا ہی کافی ہیں یا پھر ان ملک دشمن اور غداروں کو کیفر کردار تک پہنچانا اصلی کام ہے؟
یقینا انہیں منطقی انجام تک پہنچانا ہی پاکستان کے ساتھ حب الوطنی کا تقاضا ہے لیکن آج تک کسی ایک بھی فریق نے اس موضوع پہ عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکٹایا۔
اس کا آج پاکستان کو یہ نقصان ہوا ہے کہ ملک کی لڑکھڑاتی معیشت کو سنبھالنے کے لیے پاکستانی وزیراعظم اگر بھارت ، امریکہ اور اسراٸیل کے رہنماٶں سے ہاتھ ملانے کی کوشش بھی کرتا ہے تو عوام اسے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں کہ کہیں یہ پاکستانی مفادات کا سودا کرنے تو نہیں جا رہا۔
لوگوں کی ذہنی کیفیت ایسی کیوں ہے ؟ یہ اتنا پیچیدہ سوال نہیں کہ اس کا جواب ماہر نفسیات ہی دے سکے۔ اگر آپ کسی دانا سے پوچھیں کہ پاکستان کی خراب معاشی حالت ، سیاسی عدم استحکام ، بیرونی و اندرونی مساٸل کے ذمے دار بھارت ، امریکہ یا اسراٸیل ہیں ، یقینا وہ کہے گا نہیں اس کے ذمہ دار ہمارے حکمران ہیں۔
آج اسے یہ یھی علم ہو چکا ہے کہ قاٸد کا پاکستان امریکی بحری بیڑہ نہ پہچنے کی وجہ سے نہیں ٹوٹا بلکہ ہماری اپنی بیوقوفیوں کی وجہ سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بنا۔
وہ یہ بھی بتاۓ گا کہ افغانستان میں ہم مدرسوں کے طلبا کو جہاد کیلیے نہیں بلکہ ڈالروں کی وصولوی کے لیے بھجتے رہے ہیں ۔ پاکستان کے سرکاری اداروں کو بھارت ، امریکہ اور اسراٸیل نے نہیں بلکہ ہم نے ہی کمزور کیا ہے۔
پاکستانی حکمران جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو عوام کو رعایا سمجھ کہ انکے مساٸل سے لاتعلق ہو جاتے ہیں لیکن جب اقتدار چھنتا ہے تو اسی رعایا کے شہری حقوق کی جنگ میں یہ دیسی مقرر ونسٹن چرچل ، ابراہم لنکن اور بڑے بڑے سوشلسٹ رہنما لینن ، کارل ماکس اور ٹروٹسکی جیسے عظیم کرداروں کا روپ دھار لیتے ہیں بلکہ انتخابات سے قبل تو ان میں اسلامی انقلاب کے داعیوں حسن البناء ، سید کتب اور ڈاکٹر جمال الدین افغانی کی روحیں بھی بیدار ہو جاتی ہیں اور رعایا کو یہ یقین دلاتے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ اقتدار میں بیٹھے لوگ بھارت ، امریکہ اور اسراٸیل کے ایجنٹ ہیں۔
ان نعروں سے لوگوں کے جذبات کو ایسی چوٹ مارتے ہیں کہ بھلے مانس لوگ جذباتی ہو کر ووٹ کی پرچی پہ انہی کے انتخابی نشان پہ ڈھپہ مار دیتے ہیں ، لیکن ناجانے لوگ پھر ان سے کب پوچھیں گے کہ حضور اب آپ اقتدار میں آ گٸے ہیں ، سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔
اب تو ان غداروں پہ مقدمہ کریں ، بھارت امریکہ اور اسراٸیل کے ان سہولت کاروں کو عبرت کا نشان بناٸیں جن کے خلاف نعرے لگا لگا کہ ہمارے گلے خشک ہو گئے، اب تو ان غداری کے نعروں سے آگے بڑھیں تاکہ اگلی مرتبہ ہم آپ کو کارکردگی کی بنیاد پہ ووٹ دیں۔
ارسٹوٹولین کیتھارسسز تھیوری میں کہا جاتا ہے جو تماشاٸی ڈرامے کو دیکھ کر سب سے زیادہ چیختا ہے تو سمجھ جاٶ کہ اسے نہ ڈرامے کے ڈاٸیلاگ کی سمجھ آٸی اور نہ ہی مفہوم کی !