Ultimate magazine theme for WordPress.

سیاست اور ریاست ! عرفان خان سدوزٸی کا کالم

451
عرفان سدوزئی

سیاست اور ریاست ! عرفان خان سدوزٸی کا کالم

آج آٸینی بحران اس انتہا کو پہنچ چکا ہے کہ آٸین کی درست تشریح کو کوٸی ایک فریق بھی ماننے کو تیار نہیں ، وہ بھی جو اس کی تشریح کر رہے ہیں ۔

اس وقت سیاسی جماعتیں ، اعلی عدالتیں اور عسکری ادارے لڑتے لڑتے ایک دوسرے کے اتنا قریب آ چکے ہیں کہ سب کے سینگھ پھنسنے کے خدشات ہیں ، اور اگر ان کے آپس میں سینگھ پھنس گۓ تو پھر یہ اُس وقت تک نہیں نکلیں گے جب تک ٹوٹ نہ جاٸیں ۔

میڈیا یہ سب دیکھ بھی رہا ہے اور دکھا بھی رہا ہے ، کچھ کی براٸیوں کا چرچا تو زبان زدعام تھا ہی لیکن آج ان کا بھی پردہ چاک ہو گیا جو حمام میں چھپے بیٹھے تھے ۔ آج اپنے ہی اپنوں کو کوس رہے ہوں گے کہ کاش جنرل مشرف میڈیا کو آزاد نہ کرتے ۔

چند برس قبل یہ بحث چل نکلی کہ ریاست اہم ہے یا آٸین ۔ ماسواۓ پیپلز پارٹی کے سینٸر رہنماٶں کہ باقی داٸیں بازوں کی سیاسی جماعتیں کھل کر آٸین کی اہمیت کو بیان نہ کرتیں اور ڈرتے ڈرتے کہتیں کہ ریاست بھی اہم ہے اور آٸین بھی لیکن کچھ لوگ آٸین کی اہمیت سے سراسر منکر تھے۔

ان میں مرحوم جنرل حمید گل سب سے آگے تھے وہ کہا کرتے کہ پاکستان ہے تو آٸین ہے ورنہ آٸین کی اہمیت صرف ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں ۔ جنرل حمید گل کے شاگرد جنرل پرویز مشرف بھی اس فلسفے پہ کاربند رہے کہ ریاست پاکستان اہم ہے آٸین نہیں ، حتی کہ جنرل مشرف نے تو یہ نعرہ بھی تخلیق کروایا کہ ” سب سے پہلے پاکستان “ ۔

بلاشبہ یہ عمرانی معاہدہ ہی ہے جو ایک خطے میں بسنے والے مختلف مذاہب ، مسالک ، لسانی اور علاقاٸی گروہوں کو یکجا کرکے وہ اصول وضع کرتا ہے کہ انہیں مخصوص علاقاٸی حدود کے اندر کن ضوابط کے مطابق زندگی گزارنی ہے ، اسی عمرانی معاہدے میں ریاست کی تشریح ہوتی ہے ۔ متحدہ پاکستان سے بنگلہ دیش بنا لیکن مغربی حصے کو اسی آٸین نے پاکستان بنایا۔

اگر بنگالی یہ دعوی کر لیتے کہ مشرقی حصہ ہی اصل پاکستان ہے ، ہندوستانی مسلمانوں نے اسی پاکستان کے لیے قربانیاں دیں تو پھر ہم کیا کرتے ۔

آج ایک طویل عرصے بعد اسفند یار ولی خان کے صاحبزادے ایمل ولی خان کو سنا ۔ان کی فکر سے سے اعلی سیاسی تربیت جھلک رہی تھی ۔ انتہاٸی سنجیدہ ، مدلل اور ایک منجھے ہوۓ سیاستدان کے انداز میں بات کرتے ہوٸے انہوں نے کہا کہ اگر آج ہمارے پاس ٹوٹے ہوۓ پاکستان کا جو بچا ہوا حصہ موجود ہے تو اسے مزید ٹوٹنے سے صرف اور صرف 1973 کے آٸین نے بچا کر رکھا ہے۔

ایمل ولی خان نے قوم کے نوجوانوں کو سمجھایا کہ” ہم پہ غداری کا لیبل لگتا رہا لیکن ہم بغیر تنخواہ اور مراعات کے نسل در نسل پاکستان ہیں اور پاکستان کے وفادار ہیں“ ۔

پہلے مرغی آٸی یا انڈہ ہمیں اس پہیلی سے نکل آنا چاہیے کیونکہ ہمارے پاس ملک بھی ہے اور آٸین بھی ، بس اس ملک کو آٸین کے مطابق چلانا ہے ۔ آٸین میں فوج اور عدلیہ کو تحفظ ضرور حاصل ہے لیکن بحثیت ادارہ پارلیمان مقدم ہے، یہیں ہر قانون بنے گا ، آٸین میں تبدیلی لاٸی جا سکے گی۔

اسی پارلیمان نے اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد صوبوں کو خودمختاری دی ہے ، اگر کوٸی پاکستان کے آٸین کو نہیں مانتا اور صوباٸی خودمختاری کا حامی نہیں تو اس کے پاس اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کا اور کوٸی راستہ نہیں ماسواۓ پارلیمان کے ۔

زور زبردستی کے فیصلے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرسکتے ہیں اور سیاسی عدم استحکام ملکی دیوالیہ پن کی وجہ بن سکتا ہے اور دیوالیہ پن خانہ جنگی میں بدلنے کا اندیشہ ہے لہذا ہمیں خبردار رہنا چاہیے کہ اگر ایسا ہوا تو ہمیں افغانسان بننے سے نہ آٸین روک سکے گا اور نہ ریاست بچا پاۓ گی ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.