
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم : صدف مرزا کا کالم
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
"ہم جو تاریک راہوں پہ مارے گئے”
دوستو سب سے پہلی بات جسے اختلاف کا یا تنقید کا جو بھی عارضہ لاحق ہے۔ وہ یہاں میری پوسٹ پر تشریف لائے، یہ انباکسئے پیغام مت بھیجیں ورنہ وہیں سے بلاکستان روانہ کر دئیے جائیں گے.
جن کو اب دو ہفتے سر کھجانے، گردن ہلانے اور انگلی اٹھانے کی مہلت ملی ہے اور فرمان جاری کرنے پہنچے ہیں، ان دانشوروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم ان جیسے نکتہ دان نہ سہی….. منطقی سوچ کو الفاظ کی قبا دے سکتے ہیں۔
مجھے سیمیں کی وفات کی خبر ملی۔ بہن نے فرمایا کہ دل کا دورہ ہے۔ میں ایک میٹنگ میں بیٹھی تھی. فوری طور پر فون کرنا ممکن نہیں تھا، چند گھنٹے بعد اطلاع ملی
طبعی موت نہیں خود کُشی ہے۔
اور
پھر پنکھے سے معلق تصویر بھی مل گئی.
انفرادی طور پر جو ابتدائی بھاگ دوڑ ہو سکی کی گئی.
صدف مرزا کا کالم
سیمیں کے گھر والے اسے مسلسل ہارٹ اٹیک قرار دے رہے تھے۔
بہاولپور” تھانے دار ” نے کہا،
ہے تو خود کشی لیکن لاش بستر پر تھی.”
جو تصویر لیک ہوئی تھی اور جو نام نہاد دوست اسے یہاں وہاں، توبہ استغفار ” کے ورد کے ساتھ بھیج رہے تھے۔
منقار زیرِ پر…. کیے آشیانوں میں دبک گئے.
تصویر کاغزات کے ڈھیر میں دبا دی گئی
ہمارا قریبی دوستوں کا گروپ جہاں جہاں رابطے کر سکا،. درخواست دے سکا، شواہد پہنچا سکا،. بھیج دئیے گئے. اب بھی کچھ اربابِ اختیار سے گفت و شنید جاری ہے.
سات جولائی کو میں نے پہلی پوسٹ لگائی
مرد حضرات سے تو گلہ ہی نہیں ان کی عمومی سرشت میں سہل ترین الزام تنہا عورت پر بے راہروی کی مہر لگانا ہے
حیرت تو مجھے تب ہوئی جب کچھ خواتین نے بظاہر سیمیں سے ہمدردی کی آڑ میں اس کی ذاتی زندگی پر ٹھپے لگانے شروع کیے….
اکیلی دبنگ عورت….. سب کا منہ توڑ دیتی تھی….
بین السطور، بے مہار عورت،
بچوں کی تنہا ماں
ارے کبھی بچے پالتی ماں بھی تنہا ہوتی ہے۔
سیمیں اکثر مجھے چھیڑتی کہ اگر ہم دونوں ہم عمر ہیں تو تیری نواسی کہاں سے آ گئی، سچ بتا سلامی میں تو نہیں ملے تھے بچے ”
سیمیں کو اپنی ہر سانس پیاری تھی، اسے زندہ رہنے کی ہوس تھی، وہ کہتی میرے بچے چھوٹے ہیں، مجھے ان کی خاطر جینا ہے.
اور میں نے تَپ کر پوچھا "تو کیا اب میں وفات پا جاؤں؟
حافظ صاحب کے لیے کیا حکم ہے، ” اور وہ خوش فکری سے ہنستی.
اب یہ جو” باجیاں ” سقراط، بقراط بنی اس کے غم، رنچ اور اکلاپے کی منطق جھاڑتی ہیں وہ ذرا تول کر لکھیں.
ہماری اماں کہا کرتی تھیں،
"ہوئیاں گلاں پرانیاں
تے بن بیٹھی آں بیبیاں رانیاں”
یہاں، وہاں سے اچکے، اٹھائے جملے لے کر، تیری میری پوسٹ سے الفاظ و حقائق لے کر ایک ” مار دی گئی” عورت کے بارے میں گوہر فشانی کی ابتدا کر دی.
سمندر پار رہنے کا مطلب… یہ ہر گز نہیں کہ پاکستان کے ادبی حلقوں کی وارداتوں سے ہم آگاہ نہیں. سخنوران اور عہدے داران جو اندر کی سبھا آراستہ کرتے ہیں ان سے بھی آگاہ ہیں
اور
جو ان کے جام بھر کر لڑکھڑاتی شاعری کی داد دینے والی چند موسمی ساوتریاں ہیں ان کو بھی جانتے ہیں.
لہذا…. میرے ساتھ جس نے موضوع سے ہٹ کر بلا وجہ کی بحث کرنا چاہے، اور لسانی استہزا کا تیر چلانا چاہے….. وہ.. اپنا جبہ و دستار بچا کر آئے۔
تیر واپس بھی پلٹ سکتے ہیں.
پاکستانی پولیس… کا طریقہ کار کیا ہے، یہ بھی مجھے پڑھانے کی ضرورت نہیں، وکلاء کی منطق کیا ہوتی ہے، یہ سمجھانے کی زحمت مت کیجیے
پہلے، ” کرنل کی بیوی” دبکے مارنے آتی تھی
اب
” تھانے دار” کی بیوی دندنانے لگی اور سبق پڑھا رہی ہیں
ملک سے باہر رہنے والوں کو کیا علم میں
"تھانے دار” کی بیوی ہوں
اللہ اکبر!!
جوابِ جاہلاں سکوت است
آخری بات یہ کہ
مانا، سیمیں کی دونوں بہنیں اور بھائی لا تعلق ہیں
ایک بات یاد رکھیے
اس کے بچے کم سن سہی…. لیکن سلامت ہیں
چھت کے پنکھے سے لٹکی تصویر، اور کرسی کے نیچے بکھرا لہو خاموش ہو گیا ہے
لیکن زندہ رہے گا.
میں نے کل بھی اپنا احتجاج درج کروایا تھا
آج بھی تحریر کیا ہے کہ جن حقائق پر بد طینتی کی سیاہ چادر ڈال کر مکمل مجرمانہ خاموشی اختیار کی گئی ہے وہ ایک دن منظر عام پر ضرور آئے گی
"قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہانگیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے”
فیض
جاری