Ultimate magazine theme for WordPress.

اسلام میں قربانی کے مسائل: تحریر و تحقیق اشتیاق بخاری ایڈووکیٹ

502
اشتیاق بخاری

اسلام میں قربانی کے مسائل: تحریر و تحقیق سید اشتیاق مصطفیٰ بخاری ایڈووکیٹ ہائی کورٹ راولپنڈی

میں نے گزشتہ روز قربانی کے مسائل کے حوالے سے چند سوالات پوچھے تھے اور میری توقع کے مطابق ان سوالات پہ جوابات نہیں آئے۔

تقریبآ آج کا دن یعنی جمعہ کو میں اسی کھوج میں لگا رہا تو مجھے بڑے بڑے دلچسپ بیانات سننے اور فتاویٰ پڑھنے کو ملے۔

آئیے پہلے وہ سوال پڑھ لیں کہ میں نے کیا سوالات کیے تھے۔

  1. کیا قربانی فرض ہے؟
  2. کیا قربانی واجب ہے، واجب کا اسلام نظریہ کب آیااور کیا صحابہ کرام کے دور میں بھی واجب کی شکل میں عبادت ہوتی تھی؟
  3. قربانی کے لیے صاحب استطاعت اور نصاب کا مسئلہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بتایا؟
  4. حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کس کس سال کی؟
  5. خلفاء راشدین کیا ہر سال قربانی کرتے تھے؟

مہربانی فرما کر ان سوالات کے جواب قرآن ، احادیث اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی سے دیں۔

اسلام میں قربانی کے مسائل

قربانی کے مسائل
اسلام میں قربانی کے مسائل

خیر میں ان شاءاللہ ترتیب وار جوابات تحریر کر رہا ہوں اپنی تحقیق کے مطابق اس میں۔ کمی بیشی کا احتمال ہے اللہ مجھے ہدایت اور علم عطا فرمائے اور میری راہنمائی کرے آمین۔

کیا قربانی فرض ہے ؟

جواب- قربانی فرض نہیں ہے حنفی مسلک میں واجب اور باقی تینوں مسالک حنبلی، شافعی اور مالکی میں اسے سنت قرار دیا گیا ہے۔

یہ سنت ابراہیم ہے جسے عاقل بالغ مسلمان اپنے جزبہ ایمانی کی بنیاد پہ ایک مالی سنت عبادت کے طور پہ ہر سال جوش وجذبے سے ادا کرتے ہیں اور نہ قربانی نہ کرنے والوں پہ قطعی کوئی حد یا تعزیر یا گناہ کی وعید یا حکم قرآن واحادیث میں بیان نہیں کی گئی ہے۔ تاہم یہ حج میں فرض ہے بخاری شریف کی حدیث نمبر 1572 یہ حدیث صحاح ستہ کی دیگر کتب میں بھی موجود ہے۔

کیا قربانی واجب ہے، واجب کا اسلام نظریہ کب آیا اور کیا صحابہ کرام کے دور میں بھی واجب کی شکل میں عبادت ہوتی تھی؟

جواب- قربانی کے فرض ہونے کی کوئی آیت قرآن میں اور کوئی حدیث صحاح ستہ میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی اسے قرآن یا حدیث یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے واجب قرار دیا گیا ہے۔

اسلام میں اللہ ، نبی و صحابہ کی طرف سے کسی بھی عبادت یا کسی بھی موقع پہ کسی بھی عمل کو واجب قرار نہیں دیا گیا اسے بعد میں علماء نے سنت اور واجب کی اصطلاح استعمال کی۔

اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور تک قربانی بطور ایک سنت ابراہیم کے طور پر کی جاتی تھی اور اسکے واجب عبادت کا کوئی تصور نہیں تھا اسلیے نہ ہی نصاب کا معاملہ تھا اور نہ ہی صاحب حثیت کا کوئی معاملہ تھا۔

بلکہ امام بیہقی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رض اللہ تعالیٰ علیہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ علیہ متعد بار قربانی نہیں کرتے تھے تاکہ امت اسے فرض نہ سمجھ لے۔

قربانی کے لیے صاحب استطاعت اور نصاب کا مسئلہ کیا حضور ﷺ نے فرمایا یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بتایا ؟

جواب- قربانی کے حوالے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص پہ فرض یا اسکی مالی حثیت کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دیا احادیث میں صرف قربانی عیدالاضحی کی نماز کے بعد جانور قبلہ رخ اللہ کا نام لیکر ذبح کرنے اور کس طرح اور کس عمر کا جانور قربان کرنا ہے بیان کیا گیا ہے۔

ایک حدیث جو اکثر صحاح ستہ میں موجود ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ جو قربانی کا ارادہ رکھتا ہو وہ عشرہ ذلحج شروع ہونے سے لیکر قربانی کرنے تک ناخن اور بال نہ کاٹے یہ حدیث بھی صحاحِ ستہ میں موجود ہے صحیح ابن ماجہ حدیث نمبر 3149 اس سے بھی وضاحت ہوتی ہے کہ جسکا ارادہ ہو۔

یہ قربانی کا نصاب بہت بعد میں علماء اہل سنت نے نکالا کہ جس کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی یا اسکے برابر رقم یا مال تجارت یا زائد مال ہو گا اس پہ واجب ہو گی یہ نصاب مجھے حتیٰ کہ امام ابو حنیفہ کے فتویٰ میں بھی دستیاب نہیں ہوا۔ باقی تینوں مسالک میں نہ واجب ہے اور نہ نصاب کا کوئی معاملہ ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کس کس سال کی ؟

جواب- صحاح ستہ کی تمام کتب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دو موقعوں پہ قربانی کرنے کے سوا کوئی حدیث موجود نہیں ہے ایک موقع تو معلوم ہے دوسرا کس سال کا ہے وہ بھی دستیاب نہیں ہے ایک تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃالوداع کے موقع پہ قربانی کی صحیح بخاری شریف کی حدیث نمبر 1572 جو کہ حج میں فرض ہے۔

صحیح مسلم کی ایک حدیث نمبر 5091 اور ہے جس میں یہ آیا ہے کہ انھوں نے ایک مینڈھا عید پہ اپنے ہاتھوں سے ذبح کیا واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی دس سال پہ محیط ہے اور اس ضمن میں جامع ترمذی کی ایک حدیث نمبر 1507 بیان کی جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی کے دس سال میں ہر سال قربانی کی یہ حدیث ضعیف ہے۔

خلفاء راشدین کیا ہر سال قربانی کرتے تھے ؟

جواب- خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے کہیں تاریخ میں یہ ذکر موجود نہیں کہ انھوں نے ہر سال قربانی کی ہو جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ علیہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ علیہ نے متعدد بار قربانی نہیں کی تاکہ امت کو احساس ہو جائے کہ یہ فرض نہیں ہے۔

اس عمل سے صاحب نصاب والا معاملہ بھی واضح ہو گیا یہ دونوں خلفاء راشدین صاحب حثیت تھے مگر قربانی ہمیشہ قربانی نہیں کرتے تھے۔

اسلام میں قربانی کے مسائل

علماء کرام اس ضمن میں حدیث بیان کرتے ہیں جس کی الفاظ یہ ہیں کہ جو وسعت رکھتا ہو اور قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہوں کے قریب نہ آئے (ابن ماجہ 3123) اس ضمن میں مولانا اسحاق نے تحقیق سے ثابت کیا کہ اس حدیث کے راوی مکمل مستند نہیں ہیں۔

اسی طرح قربانی کے جانور اور اسکے ثواب کے حوالے سے جو سنن ابن ماجہ میں حدیث نمبر 3126 ہے وہ بھی ضعیف ہے۔

زکوٰۃ کا نصاب تو مختلف چیزوں پہ مختلف ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان کر دیا مختلف چیزوں پہ زکوٰۃ کی مقدار مقرر کر دی گئی جیسے چاندی پانچ اوقیہ ہو گی تو زکوٰۃ کا اطلاق ہو گا ، سونا ساڑھے سات تولے، اسی طرح پانچ اونٹ، 40 بکریوں اور سات گائے ہونے کی صورت میں زکوٰۃ ہے۔

پھر اسی طرح جانوروں کی تعداد بڑھنے پہ یہ مقدار بڑھ جاتی ہے، اسی طرح نہری فصل کنوئیں سے پانی نکال کر زمین سیراب کرنے اور بارانی زمیں پہ فصل کی صورت میں دسواں اور بیسواں حصہ لاگو ہوتا ہے غلہ پانچ وسق سے کم ہوتو زکوٰۃ لاگو نہیں ہو گی جبکہ نقد رقم اور سونا چاندی پہ ڈھائی فیصد کا اطلاق ہوتا ہے۔

مگر قربانی کے معاملے پہ نصاب صرف چاندی کی بنیاد پہ صاحب نصاب قرار دے دیا گیا اور کہا گیا کہ جس کے پاس 52 تولہ چاندی یا اسکے برابر نقد رقم ہو گی تو اس پہ قربانی واجب ہے یعنی 70 ہزار روپے اگر آپکے پاس ہی تو آپ پہ قربانی واجب حالانکہ ساڑھے سات تولے سونا کے حساب سے یہ نصاب مقرر ہو تو لگ بھگ دس لاکھ روپے رکھنے والے کو صاحب حثیت کہا جائے گا۔

اس بات کو یوں سمجھیں کہ عیدالفطر پہ فطرانہ مختلف چیزوں پہ مختلف ہے گندم، جو، کشمش، کھجور وغیرہ کی بنیاد پہ صدقہِ فطر نکالا جا سکتا ہے یہ ہر روزہ دار کی استطاعت پہنے کہ وہ کس شے کی مقدار پہ صدقہِ فطر نکالتا ہے۔

گندم پہ ڈیڑھ سو روپے بنتے ہیں تو کشمش پہ 1700 روپے فی کس بنتے ہیں میں سمجھتا ہوں اگر علماء کرام نے قربانی کی اہمیت کے پیش نظر یہ نصاب مقرر کیا ہے تو پھر لوگوں کو چاندی، سونے، غلہ، جانور کے حساب سے نصاب بتاکر ان پہ چھوڑ دیا جائے جو جس نصاب کی بنیاد پہ فیصلہ کرکے کہ اس نے قربانی کرنی ہے کہ نہیں کرنی ہے۔

مزید یہ کہ مجھے امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا کوئی ایسا فتویٰ دستیاب نہیں ہوا جس میں انھوں نے قربانی کے حوالے سے یہ دلیل نصاب ساڑھے باون تولے چاندی اور واجب کا کہا ہو اگر کسی کے پاس ان ائمہ کی کسی کتاب میں یہ دلیل اور واجب کا حکم پڑھا ہے تو ضرور بتائے مگر خدارا ان مسالک میں رائج دلیل و رائج عمل نہ بیان کرے کیونکہ یہ تمام باتیں پڑھنے کے بعد ہی تشنگی محسوس کر کے سوال کیا تھا۔

امید ہے اس موضوع پہ تعمیری گفتگو کی جائے گی مسلکی گفتگو سے پرہیز کیا جائے گا۔

ادارتی نوٹ:

رائٹ پاکستان میں شایع کیے جانے والے مضامین میں مصنفین اور تبصرے فراہم کرنے والوں کی طرف سے اظہار خیال، موقف، آراء، یا حکمت عملی صرف اُن کی اپنی ہے، اور ضروری نہیں کہ وہ "رائٹ پاکستان” کے خیالات، آراء، موقف، یا حکمت عملی کی عکاسی کریں۔

"رائٹ پاکستان” اس مضمون میں دی گئی کسی بھی معلومات کے درستگی، مکمل یا صحیح ہونے کا ذمہ دار نہیں۔

کوئی بھی صاحب اس مضمون پر رائے دینا چاہیں تو ان کیلئے "رائٹ پاکستان” کا پلیٹ فارم حاضر ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

Leave A Reply

Your email address will not be published.