شیخ الجبال حسن بن صباح
اسماعیلی عقیدہ:- حسن بن صباح نے اسماعیلی عقیدہ صرف اقتدار کی خواہش میں قبول کیا ۔ وہ ایک جاہ پرست،ابن الوقت اور موقع پرست شاطر انسان تھا۔ اس نے مصر میں اقتدار کی راہ داریوں کی سیر کی اور وہ خلیفہ کے بیٹے کا دایاں بازو تھا، مگر جب نزاریہ فرقے پر دباؤ بڑھا تو اس نے موقع شناسی کا مظاہرہ اور شام بھاگ آیا۔
یہاں اس نے اپنی شاطرانہ فطرت اور ذہانت کا مظاہرہ کیا اور مذہبی حیثیت کو استعمال کیا اور اس طرح اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گیا ۔اس نے 1088 سن عیسوی میں قلعہ الموت کا کنٹرول سنبھالا اور پھر 35 سال تک بلا شرکت غیرے اس قلعہ اور نواحی علاقوں پر اپنی حاکمیت قائم رکھی۔ اس کی وفات 1124 عیسوی میں ہوئی۔ اس نے اثنا عشری عقیدہ چھوڑ کر اسماعیلی عقائد کی ترویج لی۔
اسماعیلی عقیدہ کی تفصیل یوں ہے کہ امامت کا آغاز حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوا، ان کے بعد امامت حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ،امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، امام باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور پھر امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منتقل ہوئی۔
اسماعیلی یہاں تک تو اثناء عشری شیعہ فرقے سے متفق ہیں مگر وہ امام موسیٰ کاظم کی امامت کو تسلیم نہیں کرتے ۔ اس اختلاف کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ امام جعفر کے بعد ان کے بڑے فرزند امام اسماعیل نے امامت سنبھالنی تھی۔
مگر چند مسائل کی وجہ سے امام جعفر صادق نے امام اسماعیل کی جانشینی ختم کر دی اور امام موسیٰ کاظم کو جانشین امام مقرر کر دیا۔اس پر چند شیعہ علماء نے اعتراض کیا کہ امام جعفر صادق کا یہ اقدام درست نہیں کیونکہ امامت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور کوئی دوسرا اسے منسوخ نہیں کر سکتا۔
اس لئے اس گروہ نے امام جعفر صادق سے علیحدگی اختیار کر لی انہوں نے امام موسی کاظم کو امام تسلیم کرنے سے انکار کیا اور امام اسماعیل کے پیروکار بن گئے ان کے نزدیک امام محمد بن اسماعیل پر آکر امامت کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور امام محمد ہی ان کے مطابق امام اخرالزماں ہیں۔
شیخ الجبال حسن بن صباح
اسماعیلی عقیدہ کے پیرو کار بہت محدود تھے اور ان کی کوئی سیاسی یا مذہبی اہمیت بھی نہیں تھی مگر ایران کے ایک شخص عبداللہ بن میمون نے اس کو باطنی تحریک کادرجہ دے دیا۔اور تبلیغ کی اور اس عقیدہ کو کافی پھیلایا۔ اس نے امام اسماعیل کا روحانی بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا۔
اس نے اپنی تحریک کو پروان چڑھانے مے لئے شمالی افریقہ کا رخ کیا اور اس کو باطنی تحریک کا نا م دے کر خوب پروان چڑھایا۔اور پھر اس کے جانشینوں نے عباسی حکومت کی کمزوری کی وجہ سے موقع سے فایدہ اٹھایا اور مشہور فاطمی خلافت قائم کر لی۔
اس نے امام محمد بن اسماعیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں یہ عقیدہ پھیلایا کہ امام مہدی روپوش ہوگئے ہیں اور مناسب وقت پر ان کا ظہور ہوگا۔
خلافت عباسیہ اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ وہ مرکز سے دور شمالی افریقہ میں اس تحریک کو دبا نہ سکی۔ حسن بن صباح نے بھی ان باطنی عقائد کی وجہ سے پہلے اسماعیلی مذہب قبول کیا اور پھر قاہرہ جاکر فاطمی خلیفہ کے اہم ترین افراد میں شامل ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
حسن بن صباح کا منصوبہ ایک خودمختار ریاست کا قیام تھا۔اس کی قسمت نے یاوری کی اور وہ اپنے معتقدین کی مدد سے اور اپنی شاطرانہ چالوں کی بدولت قلعہ الموت کا حاکم بن گیا اور کچھ عرصہ بعد 1088 عیسوی کے اوائل میں سلجوقی سلطنت سے آذاد ایک خودمختار ریاست کا اعلان کر دیا۔
اور 1124 عیسوی تک حکمران رہا اس کی وفات کے بعد اس کے جانشینوں نے یہاں حکومت کی اور آخرکار تاتاری لشکروں نے1256 عیسوی میں قلعہ الموت کو تاراج کیا اور ارد گرد کا سار اعلاقہ فتح کرنے کے ںعد اس سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔
- شیخ الجبال حسن بن صباح قسط نمبر 5