حسب معمول عیدالفطر کے چاند پر اختلاف: ڈاکٹر شاہ فیض کا کالم
سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ ہم چاند کے معاملے میں وفاقی حکومت کے پابند ہیں کسی علاقائی یا صوبائی کمیٹی کے پابند نہیں ہیں، لہذا عید الفطر کا اعلان وفاقی کمیٹی نے کرنا ہے اب اگر وہ عید کے دن روزہ رکھوا تے ہیں یا روزے والے دن عید کرواتے ہیں تو اس کی زمہ داری وفاقی رویت ہلال کمیٹی یعنی وفاقی حکومت پر ہے ہم اس سے بری الزمہ ہیں۔
کم از کم اس سال بھی دو عیدوں کے ہونے سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ مفتی منیب الرحمن صاحب اس کے اصل ذمہ دار نہ تھے جیسا کہ سابقہ ادوار میں یہ بات بکثرت کہی جاتی تھی کیونکہ اب تو وہ ذمہ دار نہیں ہیں اور پھر وہی دو عیدوں والا معاملہ درپیش ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے قوانین رویت ھلال میں کمی اور خامی یا عیب ہے۔
اس کی اصلاح کی جائے نہ کہ شخصیات کو مطعون کیا جائے یعنی یہ نظام کی خامی ہے ممکن ہے نظام کی خامی سے فایدہ اٹھاتے ہوئے کوئی کسی اور پہلو سے بھی فائدہ اٹھا لے یہ ایک الگ معاملہ ہے۔
عیدالفطر کے چاند پر اختلاف
چاند کے معاملے کو وطنیت کے منفی تصور سے تشبیہ دینا قطعا درست نہیں ہے اور یہ صرف لا یعنی شئیرنگ ہوتی ہے کہ پورے عالم اسلام کی ایک عید ہونی چاہیے عملا اس میں بے شمار رکاوٹیں ہیں یا مسائل ہیں جو بسااوقات لا ینحل ہوتے ہیں۔
میں نے شوال کا چاند دیکھ لیا میری زمہ داری صرف یہی ہے کہ میں زمہ داران تک یہ ثبوت کے ساتھ اطلاع پہنچا دوں یا پہنچانے کی کوشش کروں۔ اگر بات پہنچ جاتی ہے تو الحمدللہ وگرنہ میری ذمہ داری پوری ہو جاتی ہے۔ اب اس میں فیس بکی پوسٹیں یا منبر پر اس حوالے سے باتیں کرنا قطعا غیر مناسب رویہ ہے جس کا عملا کوئی فایدہ نہیں ہے۔
ایک صاحب نے یہ دلیل بھی دی کہ پھر وفاقی حکومت سود پر عمل پیرا ہے تو ہمیں سود کو بھی مان لینا چاہیے اب ان باتوں کے کرنے کی جب یہ دلیل ہو گی تو پھر اس کا جواب سکوت ہی ہوسکتا ہے۔
پھر بھی جن احباب نے مقامی یا علاقائی یا صوبائی کمیٹی پر اعتماد کرتے ہوئے عید کر رہے ہیں ہمیں انہیں مبارک باد دیتے ہیں اور ان پر کوئی فتویٰ نہیں لگا رہے ۔
والعلم عند اللہ واللہ اعلم باالصواب
خوامخواہ لسی میں پانی ڈالا جارہا ہے اور مدھانی ہلائی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: