
ڈاکٹر راحیل احمد معروف کالم نگار اور تجزیہ کار پروفیسر طارق احمد مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ آئیے ان کا تازہ کالم "ماں باپ کی خدمت” پڑھتے ہیں۔
پروفیسر طارق احمد نے پہلی بار برطانیہ آنے کا فیصلہ 1990 میں کیا تھا۔ یونیورسٹی میں داخلہ بھی ہو گیا۔ بتاتے تھے راحیل اجازت لینے کے لۓ اپنی امی اور تمہاری دادی کے پاس گیا۔ انہوں نے سیدھا سیدھا انکار کردیا۔
میں نے کہا امی آپ کے پانچ بچے اور بھی ہیں۔ کہنے لگی میں جانتی ہوں لیکن میں تیرے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ابو بھی خاموشی سے بیٹھ گۓ۔ خوب خدمت کی۔ ساری ساری رات ان کی ٹانگ دباتے رہتے۔
ان کو دل کی بیماری تھی۔ یہ جانتے ہوۓ بھی کہ ان کی bypass سرجری بہت high risk ہیں، ان کے ڈاکٹروں نے سرجری کا مشورہ دے دیا۔ سرجری کے دوران وہ چل بسی۔
اس وقت میں سات سال کا تھا لیکن مجھے یاد ہے کہ والد صاحب کے لۓ وہ زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔ تین سال بعد دادا ابو بھی فوت ہو گئے۔ ابو نے پھر دوبارہ برطانیہ آنے کا ارادہ کیا۔ بہت مشکلات کا سامنا کیا۔ ایک چٹان کی طرح پوری فیملی کو سنبھالا۔
چند سال پہلے میں اپنی specialisation کے متعلق سوچ رہا تھا۔ ابو نے مشورہ دیا کہ کارڈیولوجی کر لو۔ پاکستانیوں کی خدمت کرنا۔ مجھے برمنگھم کے علاقے سے ایک ریسرچ اور کارڈیولوجی دونوں کی آفر بھی آ گئی۔
ان دنوں ابو جان کی صحت بھی کچھ خراب ہونے لگی۔ ابو سے پوچھا کیا کروں؟ کہنے لگے میرے پاس نیوکاسل میں رہو۔ میں نے نیوکاسل کے علاقے کا انٹرویو دے دیا۔

انٹرویو لینے والی خاتون کارڈیولوجسٹ نے پوچھا کہ وہ دیکھ سکتی ہے کہ میرے پاس ایک بہتر آفر پہلے سے موجود ہے تو پھر میں خالی نیوکاسل کی کارڈیولوجی جاب کیوں چاہ رہا ہوں۔ اس میں ریسرچ کا مواقع نہیں ملے گا اور میں اس کو بعد میں پچھتاؤ گا۔
میں نے جواب دیا کہ اگر میرے والد کو کچھ ہو جاتا ہے اور میں اس وقت ان کے پاس موجود نا ہوا تو میں زیادہ پچھتاؤ گا۔ مجھے نیوکاسل سے بھی آفر آ گئی اور میں ابو کے پاس ہی رہا۔
ماں باپ کی خدمت
نبیل اور سجیل پورا دن ابو کے پاس رہتے۔ رات کو میں ان کے ساتھ سوتا۔ ایک دفعہ رات کو میری آنکھ کھل گئی تو مجھے احساس ہوا ابو اٹھے ہوۓ ہیں۔ ابو آپ مجھے اٹھا لیتے؟ کہنے لگے یار تو اتنے آرام سے سو رہا تھا تجھے کیوں اٹھاتا۔ وہ آخر تک ہمارا ہی خیال کرتے رہے۔
لوگ اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کے انتقال کے بعد بھی ان کی فیس بک لائیو کیوں رکھی ہوئی ہیں۔ مختصر یہ کہ ابو نے اس کی اجازت جانے سے پہلے مجھے خود دے دی تھی۔
میرے ابو کے کچھ خواب تھے جو کہ اب میرے خواب بن چکے ہیں۔ ان کے دوستوں کا میں احترام کرتا ہوں۔ لوگ یہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ میں اس فیسبک ID کا نام تبدیل کر دوں۔
میں سمجھتا ہوں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ ہماری پہچان ایک ہی ہے۔ ان کا نام اور تصویر دیکھ کر میرے دل کو سکون ملتا ہے۔ ان کی کہی ہوئی باتیں میرے اندر بسیرا کر لیتی ہے اور میرے چہرے پر ایک مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ یہ مسکراہٹ میرے ابو کے چہرے پر ہر وقت موجود رہتی تھی۔
ابو جان یہ بھی کہا کرتے تھے کہ جس کا بیٹا جوان ہو جاۓ تو اسکی اپنی جوانی بھی لوٹ آتی ہے۔ میں اپنے والد کی طرح قابل نہیں ہوں اور نہ ہی ان کی طرح لکھ سکتا ہوں۔
میں اپنے میڈیکل کے شعبے میں ترقی کرنا چاہتا ہوں لیکن جب تک میں یہاں ہوں میرے پیارے ابو کی فیس بک اور ان کا نام زندہ رہے گا۔ انشاللہ۔
ابو کے جانے کے بعد جہاں میں نے اپنی کلینیکل ٹریننگ جاری رکھی وہیں اب ریسرچ (پی-ایچ-ڈی) بھی شروع کر لی ہے۔ چند ماہ بعد میں امریکہ کی دو بڑی بین الاقوامی کارڈیالوجی کانفرنسوں (واشنگٹن اور سان فرانسسکو) میں اپنی ریسرچ present کروں گا۔
اللہ پاک کا شکر ہے۔ ابو نے اپنے ماں باپ کو ترجیح دیں۔ ہم بھائیوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ آخر میں سب کچھ مل جاتا ہے۔ لیکن ماں باپ دوبارہ نہیں ملتے۔ ان کی خدمت کریں۔ اپنی جنت کمائیں۔
پروفیسر طارق احمد کہا کرتے تھے کہ اس دنیا میں صرف آپ کے والدین ہیں جو آپ کی کامیابی پر آپ سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ میری اور میرے بھائیوں کی کوئی بھی کامیابی درحقیقت میرے والدین کی ہی کامیابی اور ان کی محنت اور صبر کا ثمر ہیں۔
دعاؤں میں یاد رکھیے گا، شکریہ