Ultimate magazine theme for WordPress.

برطانوی میڈیکل اسکول میں داخلہ

ڈاکٹر راحیل احمد

154

برطانوی میڈیکل اسکول میں داخلہ (تحریر: ڈاکٹر راحیل احمد ابن پروفیسر طارق احمد)

برطانیہ کے میڈیکل اسکول میں داخلے کا معیار پاکستان سے بالکل مختلف ہے۔ یو کے کی یونیورسٹی میں جگہ حاصل کرنے کے لۓ تعلیمی امتحانات میں اچھے نتائج کافی نہیں ہیں۔

ایک طالب علم کو اپنی اسکول سے باہر کی سرگرمیوں اور تجربات پر ایک personal statement لکھنی ہوتی ہے۔ انہیں یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ وہ کیسے ایک ہمدرد انسان ہیں۔ زیادہ تر بچے خیراتی تنظیموں کے لیے رضاکارانہ کام کرتے ہیں اور ہسپتالوں بھی کچھ وقت گزارتے ہیں۔

اس کے بعد ان کا ایک IQ امتحان ہوتا ہے۔ یہ آئی کیو ٹیسٹ فیصلے کرنے کی صلاحیت، ٹیم ورکنگ اور اچھی بات چیت جیسی خصوصیات کی جانچ کرتا ہے۔

چند طلبہ کو پھر انٹرویو کے لیے بلایا جاتا ہے۔ انٹرویو میں دوبارہ یہ جانچا جاتاہے کہ آیا طالب علم کے پاس اچھا ڈاکٹر بننے کی قابلیت ہے کہ نہیں۔ ان سے اخلاقی مخمصوں کے علاوہ یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ وہ بعض مشکل حالات سے کیسے نمٹیں گے۔

اچھے جوابات دینے والے طلباء کو میڈیکل اسکول میں داخلے کی اینٹری دے دی جاتی ہے۔ برطانیہ میں، یہ سمجھا جاتا ہے کہ صرف اچھے gcse یا Alevels (میٹرک اور ایف ایس سی) اسکور حاصل کرنے سے طالب علم اچھا ڈاکٹر نہیں بن جاتا۔

برطانوی میڈیکل اسکول میں داخلہ

میڈیکل اسکول میں مریض کی بات تحمل سے سننے اور ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کی مہارت نہ صرف سکھائی جاتی ہیں بلکہ اس کا امتحان بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر پاکستان کا کوئی ڈاکٹر یوکے میں کام کرنا چاہتا ہے تو اس کے plab امتحان میں بھی یہیں ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔

وہ برطانیہ کے بچے جن کے والدین کی آمدنی کم ہو یا وہ کم سماجی اقتصادی علاقے یا اسکول میں رہتے/پڑھتے ہیں تو ان کے داخلے کا معیار آسان کر دیا جاتا ہیں۔

درحقیقت غریب پس منظر کے بچوں کی یونیورسٹیوں میں سیٹوں کی ایک مقررہ تعداد ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یونیورسٹیاں سمجھتی ہیں کہ ہر طالب علم اپنے پس منظر سے قطع نظر مساوی مواقع کا مستحق ہے۔

شاید یہیں وجہ ہے کہ ایک بس ڈرائیور کا بچہ اس وقت لندن کا میئر ہے (صادق خان) اور دوسرا برطانیہ کا ہیلتھ سیکرٹری ہے (ساجد جاوید)۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.