بلال طالب: فٹ پاتھ سے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون بننے کا سفر
پاکستان نوجوانوں کا ملک ہے۔ نوجوان ذہین و فطین ہیں مگر کارکردگی دکھانے کے لئے مواقع محدود ہیں۔ وہ ڈگریاں تو لے لیتے ہیں مگر اس کے بعد کرئیر بنانے میں ان کو مشکلات کا سامنا ہے۔
ایسے میں وہ لوگ ان کے لئے چراغ کی لو کا کردار ادا کرتے ہیں کہ جنہوںنے صفر سے آغاز کیااور زندگی کو اتنا اوپر لے گئے کہ آج اپنے پیشے میں لوگ ان کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں۔
پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں اس کاروبار کو کرنے کے طریقے بھی تبدیل ہورہے ہیں۔
اس بزنس کے بارے میں ، اس میں کامیاب ہونے کے گر اور زندگی میں مثبت رہنے کا فن جاننے کے لئے ہم نے چیف ایگزیکٹو آفیسر کیلیفورنیا رئیل اسٹیٹ بلال طالب کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا۔
آپ کا تعلق کراچی سے ہے۔آپ نے چند ہزار روپے کی سرمایہ کاری سے اپنا کام شروع کیا اور آج کئی کمپنیوں کے مالک ہیں۔ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو قارئین کی معلومات اور ترغیب کے لئے پیش خدمت ہے ۔
بلال طالب: فٹ پاتھ سے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون بننے کا سفر

سوال: رئیل سٹیٹ کا کاروبار آپ نے کب شروع کیا اور چند ہزار روپے کی سرمایہ کاری سے کروڑوں روپے کیسے کمائے ،اپنے ترقی کے اس حیران کن سفر بارے کچھ قارئین کو بھی بتائیں؟
بلال طالب:میں 2013ءسے اس کاروبار میں ہوں۔میرا ذاتی خیال ہے کہ پیسے زیادہ اہم منزل کا تعین ہے۔ پہلے آپ تعین کریں کہ آپ کرنا کیا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد پیسہ بھی انسان کما لیتا ہے۔
اپنی ذات کے ساتھ کمٹمنٹ کرنا اور پھر اس پر عمل کرنا زندگی کا مشکل ترین کام ہے ۔جو لوگ اپنے ساتھ کی ہوئی کمٹمنٹ پر پورا اترتے ہیںوہ ضرور کامیاب ہوتے ہیں۔ بس کامیابی کا یہ سفر مثبت مقاصد کے لئے ہونا چاہئے۔
پیسے کمانے کے دو طریقے ہیں: ایک یہ ہے کہ آپ کے پاس پیسے ہیں ان کو انویسٹ کریں اور اس سے پیسہ کمائیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ کے پاس جو مہارت ہے اس کے اظہار سے آپ محنت کر کے ترقی کے زینے چڑھتے جائیں: بلال طالب
میں نے دوسرا والا طریقہ چنااور اپنی صلاحتیوں کے بل پر منزل کے حصول کی جانب چلتا گیا۔

سوال: عام طور پر ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کی سوچ، ہر کسی میں یہ فہم یا ادراک نہیں ہوتا۔ کیا آپ نے بچپن سے ہی سوچ رکھا تھا کہ کچھ الگ کر کے دکھانا ہے چاہے کچھ بھی ہوجائے ؟
بلال طالب: یقینا، شعوری عمر میں داخل ہوتے ہی میں نے چیزوں کو ایک مختلف طریقے سے دیکھنا شروع کیا۔ منزل یہی تھی کہ حالات جیسے بھی ہوں بس کارکردگی دکھانی ہے۔
خاندان میںاپنی ایک الگ پہچان بنانی ہے۔ مثال بننا ہے ۔ معاشرے میں ایک مثبت کردار کے طور پر جانا جانا ہے ۔ انسانیت کی بھلائی کے لئے کچھ کرنے کے قابل بننا ہے۔
اس دھرتی کے لئے کچھ ایسا کروں کہ جس کے لئے دوسروں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہوں۔ میں نے زندگی میں آوٹ آف باکس سوچنا شروع کیا۔ اپنی ذات سے باہر نکل کرسوچا اور الحمداللہ اپنی اس سوچ اور نظریے پر ابھی بھی کاربند ہوں۔
سوال :آپ لاہور سے کراچی گئے ،کراچی میں سٹرکوں پرسوئے ،مشکل وقت میں گزارا کیا ۔کیسے اتنی ہمت آئی ،کیسے تھے وہ دن،کونسی امید تھی جس کا سہارا تھا ؟
بلال طالب: آج بھی وہ وقت یاد کرتا ہوں تو مجھے کبھی برا محسوس نہیں ہوا،بلکہ اچھا لگتا ہے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ میںنے اپنی ذات سے کی ہوئی کمٹمنٹ پوری کی۔

میرا ایک مقصد تھا ، میری ایک منزل تھی۔ میں نے روزی روٹی سے آگے کا سوچ رکھا تھا۔ جب آپ خود کو کسی مقصد کے ساتھ نتھی کر لیتے ہیں تو پھر اس مقصد کے حصول کے لئے آنے والی مشکلات سے آپ لطف لیتے ہیں۔
میں فٹ پاتھ پر سو کر بھی اللہ کی نعمتوں کا ہی شمار کرتا تھا۔ کہ اللہ نے مجھے کس کس نعمت سے نوازا ہے جو دوسروں کے پاس نہیں۔ میں نے خود ترسی اختیار نہیں کی: بلال طالب
جو نشہ کرنے والے اور مانگنے والے میرے ساتھ فٹ پاتھ پر لیٹے تھے میںنے ان میں اپنے آپ کو کروڑوں درجے بہترپایا۔ میں سوچتا تھا کہ یہ بھی تو انسان ہی ہیں، لیکن مجھے اللہ نے کم از کم شعور تو دیا ہے۔ جو میرے خواب ہیں ان کو دیکھنے کی صلاحیت ان لوگوں سے تو چھن گئی ہے تو میں بہتر ہوا ان سے۔
میں اسی طرح خود کو ترغیب دیتا تھا۔ کراچی کے اندر کوئٹہ کی ہواﺅں کے باعث سردی تھی تو میں شکر اداکرتا تھا کہ مالک نے مجھے سردی برداشت کرنے کی صلاحیت تو دے رکھی ہے۔
گرم کپڑے آج نہیں تو کیا، مل جائیں گے۔ گھر نہیں تو کیا، زندہ رکھنے کا حوصلہ تو دیا ہے۔ آپ کے مقصد کے آگے یہ سب چھوٹی چیزیں ہیں۔
ان ساری تکالیف کو یاد کر کے میں آج بھی انجوائے کرتا ہوں ۔ وہ نہ ہوتیں تو میری کامیابی میںلطف کم ہوتا۔
سوال: شکر گزاری کا مزاج اور مثبت سوچنا، بزرگوں سے سیکھا، والدین سے یا کتابوں میںپڑھا؟کیسے آپ نے اپنی سوچ کو اتنا میچو رکیا ۔تب تو موٹی ویشنل سپیکر بھی نہیں تھے،آپ کا سیکھنے کا ذریعہ کیا تھا؟
بلال طالب: میرا تعلق ایک چھوٹے سے گاﺅں سے ہے ۔ میری والدہ سے یہ مجھے ملی۔ شکر گزاری اور صبر و قناعت میرے ڈی این اے میں ہے۔ والدہ نے مجھے شکرگزاری سکھائی۔
میری فیملی کے لئے بنیادی سہولتوں کو پورا کرنا بھی ایک چیلنج ہوا کرتا تھا۔ اس وقت میری والدہ نے جن مسائل کا جس بہادری سے سامنا کیا اور برداشت کیا ہر طرح کے حالات کو، وہ میری رول ماڈل بن گئیں: بلال طالب
دوسری بات یہ ہے کہ کیفیات ہر دماغ میں ہر صورت حال کے مطابق پیدا ہوتی ہیں۔ سوچیں آتی ہیں۔اب یہ آپ پرمنحصر ہے کہ آپ ان میںسے کس پر فوکس کرتے ہیں۔ رونے دھونے پر یا ہمت کرنے والے خیالات پر۔
وقت کے ساتھ ساتھ مشق جس بھی سمت میں آپ کرتے رہیں وہ زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ وہی آپ کامزاج بن جاتا ہے ۔ دانشوروں کا مطالعہ اور ان کو سننا بھی اہم ہے ۔ ”کامیاب ترین لوگوں کی سات بہترین عادات “۔
یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ اسی قسم کا دوسرا لٹریچر، قاسم علی شاہ صاحب کا کام، یہ سب مثبت رویوں کی تعمیر میں کردار ضرور ادا کرتے ہیں، جس بھی موضوع پر میرے ذہن میں کوئی چیز چل رہی ہو اس موضوع پر میں مختلف لوگوں کو سنتا ہوں۔
لوگوں کو پڑھتا ہوں ۔ تاکہ میں بہتر فیصلہ کر سکوں، اپنی اپروچ کو بہتر سے بہتر بنا سکوں۔
سوال: آپ کی زندگی میں سب سے مشکل لمحہ کون سا تھا اور آپ اس سے کیسے نبردآزما ہوئے ؟
بلال طالب: زندگی میں سب سے مشکل لمحہ وہ تھاجب میں نے اپنا بھائی کھویا۔ اذیت ناک لمحہ تھا۔ ڈاکٹر مجھے بتا چکے تھے مگر مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ والدین کو کیسے بتاﺅں۔ میں ان کی ذہن سازی کرنے لگا۔
میں خود تکلیف میں تھا ایسے میں والدین کو دلاسہ دینے کی کوشش بہت مشکل کام تھا۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا کہ ہر آپشن میں استعمال کرنا چاہتا ہوں۔
آپ امریکہ بھیجنا چاہیں میں افورڈ کرسکتا ہوں ۔مگر جب ڈاکٹر نے ناں میں سرہلایا تو اس واقعے نے زندگی کے بارے میں میرا نظریہ ہی بدل کر رکھ دیا۔
ضرورت توڑ دیتی ہے غرور بے نیازی کو
نا ہوتی کوئی مجبوری تو ہر بندہ خدا ہوتا
مجھے اس شعر کی اس وقت صحیح معنوں میں سمجھ آئی۔ منزل کے حصول کے لئے برداشت کی گئی تکلیفوں اور ایسے غمزدہ لمحات میں بہت فرق ہوتا ہے۔
پروفیشن کی راہ میں ملنے والے تکالیف آپ کو اوپر اٹھاتی ہیں، بہت کچھ سکھا جاتی ہیں۔ میں نے محنت کے ابتدائی دنوں میں بہت کچھ سیکھا، خاص طور پر ان دنوں میں جب لوگوں کا مجھ پر یقین ، بے یقینی میں بدل رہا تھا: بلال طالب
کامیابی کے بعد بھی زندگی میں امتحانات ختم نہیں ہوتے ،مگر میںسمجھتا ہوں کہ میں اپنی زندگی کا سب سے بڑا امتحان دے چکا ہوں۔ اب مجھے کوئی تکلیف پریشان نہیں کرسکتی۔
سوال: ہمارے نوجوان بہت جلد مایوس ہوجاتے ہیں۔کبھی اپنے گھریلو حالات ،کبھی کرئیر کی مشکلا ت اورکبھی ملک کے ماحول سے ۔آپ ان کو کیا پیغام دینا چاہیں گے کہ وہ کیسے خود کو چارج رکھیں، مثبت اپروچ اور رویہ اختیار کریں؟
بلال طالب: اپنے آپ کو کھنگالیں، اپنی پہچان کریں کہ اللہ نے آپ کو کس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ جس کو میں اچیومنٹ سمجھ رہا ہوں ان کو کوئی دوسرا بندہ کچھ سمجھتا ہی نہ ہو۔ اپنی ذات پر کام کرنا بہت ضروری ہے۔
مثبت رہنے کے لئے مثبت صحبت کا اختیارکرنا بہت ضروری ہے ۔ آپ اپنی سوچ اور منزل کے راہیوں میں شامل ہوں۔ ان کے ساتھ میل جول رکھیں۔ ان کے ساتھ جڑے رہیں۔ انسان سماجی حیوان ہے۔
اس پر ماحول اثرانداز ہوتا ہے۔ آپ اپنا ماحول ویسا بنائیں جوآپ زندگی میں کرنا چاہتے ہیں۔ صحافی بننا چاہتے ہیں تو ان کی صحبت میں جائیں، کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو کاروباری افراد میں اٹھنا بیٹھنا رکھیں۔ روزمرہ معمول کو بہتر بنائیں۔
ورزش کی عادت اپنائیں۔ ہردن کچھ نہ کچھ سیکھیں۔ اپنے علم کو اپ ڈیٹ کرتے رہیں۔ سوچ کو بہتر سے بہتر بنائیں۔ مقصد کی راہ میں رکاوٹیں اور متحانات آتے ہیں مگر آپ نے اپنی لگن سے اس پر کاربند رہنا ہے: بلال طالب
سوال : آپ کے کامیابی کے سفر میں کوئی ایسا شخص جس کو آپ آئیڈیل مانتے ہوں؟
بلال طالب: شاہد قریشی صاحب سے میں نے بہت کچھ سیکھا ۔وہ میرے آئیڈیل ہیں ۔ وہ جس اندازمیں چیزوں کودیکھتے ہیں، منصوبہ پر عمل پیرا ہوتے ہیں میں ان سے متاثر ہوں۔
سوال : کامیابی کا آسان فارمولا کیا ہے ؟
بلال طالب: اپنے کا م کے ساتھ عشق کرو، اپنے جذبے کو ہوا دو۔ اس کے ساتھ محبت کرو کہ وہ کا م ہی نہ لگے ۔وہ آپ کو وقت سے بے نیاز کردے۔ اس کا مزہ لیں۔ کام سے مزہ آنے لگے تو وہ کام نہیں رہتا۔
سوال: کیلیفورنیا رئیل سٹیٹ آپ کی کمپنی ہے ۔اس کے بارے میں کچھ بتائیں کہ یہ کیا کیا سروسز فراہم کررہی ہے اور مستقبل میں آپ کی کیا منصوبہ بندی ہے؟

بلال طالب: میں خود محنت کر کے اوپر آیا ہوں۔ میں نے اپنی ٹیم بھی اسی طرح بنائی ہے۔
میرا اپنی ٹیم کے ساتھ استاد شاگرد والا تعلق بھی ہے ۔ ہم ان کی تربیت بھی کرتے ہیں۔ خود احتسابی سے چیزوں کو بہتر بھی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی ٹیم کو میں پارٹنر کے طور پر سمجھتا ہوں۔
بحریہ ٹاون میں ہمارے کنسٹرکشن کے منصوبہ جات چل رہے ہیں۔ نئے نئے کانسپٹ پر ہم کام کرتے ہیں۔
آنے والے پانچ سالوں میں کیلیفورنیا رئیل سٹیٹ پاکستان کے ٹاپ کے بلڈزر میں سے ہوگا۔ ڈویلپر ہوگا۔ یہ پاکستان کی کنسٹرکشن اور رئیل سٹیٹ میں اہم کردار ادا کرے گا۔
سوال:کوئی ایسا خواب جو آپ فوری طور پر پورا کرنا چاہتے ہیں؟
بلال طالب: میں نے زندگی بامقصد گزاری ہے ۔ زیادہ خواہشات نہیں پالتا۔ کاش والی لائن پر نہیں چلتا۔
میں چاہتا ہوں اور میری کوشش ہے کہ میری ٹیم اتنی اچھی ہوجائے کہ میں پاکستان بھر میں اپنے کام سے اثرات چھوڑوں۔ اور پاکستان کی کنسٹرکشن انڈسٹری میں ہم ٹاپ پر گنے جائیں۔
یہ بھی پڑھیں: