المیہ سقوط مشرقی پاکستان قسط 1: پاک بحریہ کے سابق کمانڈو محی الدین چودھری نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات اور بنگالیوں کا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔ آئیے پڑھتے ہیں۔
کتنی برساتیں بیت گئیں، پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ گہا، مگر اس المناک المیہ پر بہنے والے خون کے دھبے ابھی تک نہیں دھلے۔ پچاس سال گذر گئے ۔ لوگوں نے بہت کچھ لکھا۔ چھ لوگ حب الوطنی کے نام پر لکھتے رہے پاک افواج کو حب الوطنی اور پاکستان کی خاطر اپنا خون بہانا پڑا۔
مسلم لیگ، جماعت اسلامی، دیگر مذہبی جماعتوں اور بہاری طبقے نے بالخصوص حب الوطنی اور پاکستان دوستی کے نام پر بے لوث طریقے سے کوشش کی اور اس کے نتیجے میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ کچھ کی اگلی نسلیں بھی ابھی تک اس عذاب کو جھیل رہی پیں۔
سقوط مشرقی پاکستان قسط 1
عوامی لیگ کی غداری اور بھارت پرستی تو 1971 سے پہلے ہی عیاں ہو چکی تھی۔ مگر بنگالی قوم پرستوں کا نقطہء نظر بالکل مختلف تھا۔ وہ بنگال میں ہونے والے فوجی ایکشن کو بنگالی عوام کے قتل عام کا حکم نامہ سمجھتے ہیں۔
سیاسی مسائل اپنی جگہہ کہ آخر کیا رکاوٹ تھی کہ جمہوری تقاضوں کے مطابق واضع اکثریت رکھنے والی عوامی لیگ کو اقتدار کیوں منتقل نہ کیا گیا جب کہ نیشنل عوامی پارٹی اور مغربی پاکستان کے چند دیگر گروپ بھی ان کی حمایت پر تیار تھے۔
اسی وجہ سے ہزاروں پاکستانیوں کا خون ناحق بہا۔ اور پھر مکتی باہنی نے بھارتی مدد سے غیر بنگالی اور پاکستان کے حامی طبقات کا جینا مشکل کر دیا۔ اس طرح قانون کے نفاذ کی خاطر ہزاروں قوم پرست بنگالیوں کی جانیں گئیں۔
بیگم جہاں آراء کا خاندان اور مکتی باہنی:

بھارتی افواج نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا اورپاکستان کو دو لخت کر دیا گیا اوربنگلہ دیش بن گیا۔
بنگلہ دیش ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ 1972 اور موجودہ بنگلہ دیش میں زمین آسمان کا فرق پڑ چکا ہے۔میں کچھ سال پہلے ڈھاکہ گیا تو مجھے ” شہید جنانی جہاں آرا میوزیم ” دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ میوزیم بیگم جہاں آرا امام کی جدوجہد اور قربانیوں کی یاد میں بنایا گیا ہے۔
ان کے بارے میری معلومات بالکل نہیں تھیں اس لئے میرے میزبان نے مجھے ان کی کتاب ("اکہتر کے وہ دن”) مصنفہ جہاں آرا امام تدوین احمد سلیم، جس کو فرخ سلیم گوئیندی نے جمہوری پبلی کیشز، لاہور سے چھاپا) کی ایک جلد بھجوائی۔
اس کتاب میں یکم مارچ 1971 سے لے کر 17 دسمبر 1971 بروز جمعہ تک کے حالات درج ہیں۔ جہاں آرا امام ایک بنگالی قوم پرست خاتون تھیں، جنہوں نے اپنے پورے خاندان کے ساتھ مکتی باہنی کی شدت پسندانہ تحریک میں حصہ لیا اور اسی دوران اپنا سرمایہ، اپنے بیٹے اور شوہر کو بھی اسی تحریک کی بھینٹ چڑھا دیا۔
وہ ایک سرگرم قوم پرست خاتون تھیں جنہوں نے عملی طور پر بھی اس تحریک کے لئے بہت کام کیا۔ ان کا ٹارگٹ پاکستان کی یکجہتی کو نقصان پہنچانا اور پاک افواج کو زچ کرنا تھا۔ ان کوششوں کے بارے میں وہ برملا اپنے نظریات کا اعتراف کرتی ہیں۔
جہاں آرا امام 3 مئ 1929میں مرشد آباد ایک خوشحال اور ترقی پسند مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کی شادی ایک مشہور سول انجینئیر شریف عالم امام سے ہوئی۔ وہ خود ڈھاکہ کے ایک کالج میں پڑھاتی رہیں۔ اور 1952 سے "ماہنامہ خواتین ” کے ایڈیٹر کے طور پر اپنی صحافیانہ زندگی کا آغاز کیا۔
ان کی کتاب دراصل ان کی ڈائری کے اقتسابات ہیں جو کتابی شکل میں شائع کئے گئے اور اس کتاب کا انگلش اور اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ ان کی وفات 26 جون 1994 میں 65 سال کی عمر میں ہوئی۔ بنگلہ دیش حکومت نے ان کے اعزاز میں یہ میوزیم قائم کیا اور انہیں مختلف اعزازات سے نوازا گیا۔
ان کی ڈائری کے مطابق مارچ کے آغازمیں ڈھاکہ کے حالات کا ذکر ہے جس میں پاکستانی فوج اور انتظامیہ کے خلاف ان کی بہت سخت نفرت عیاں ہے۔ان کا گھر قوم پرستوں کی آماجگاہ بن چکا تھا جو بنگال کی آزادی کے دعویدار تھے۔ حتی کہ وہ شیخ مجیب کو سست رو قرار دیتے تھے اور سات مارچ 1971 کوہی ریس کورس میں لہرایا جانے والا آذاد بنگلہ دیش کا جھنڈے بنوانے کا کام شروع کر دیا تھا۔
پاکستان کا وزیراعظم یا بنگال کا ہیرو:

ان کا بیٹا رومی امام علیحدگی پسند طلبہ کا سرخیل بن چکا تھا۔ وہ مولانا بھاشانی کے اس جملہ کو اکثر دہراتا تھا” پاکستان کا وزیر اعظم بننے کے مقابلہ میں بنگال کا ہیرو ہونا کہیں زیادہ باعث فخر ہے۔” اور یہ سب علیحدگی پسندوں کی ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔
علیحدگی پسندوں کی تحریک کے ساتھ ڈھاکہ کے شاعروں اور ادیبوں نے بھی یکجہتی کا اعلان کیا جن میں جہاں آرا امام بھی شامل تھیں۔ 15 مارچ کو تمام علیحدگی پسند زعما نے سرکاری اعزازات واپس کردیے۔
اس پر جہاں آرا نے اپنے گھر میں جشن منایا۔ 16مارچ کو جہاں آرا کو علم ہوا کہ اس کے بیٹے رومی نے گھرمیں اسلحہ اور بارود رکھا ہوا ہے اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر بم بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
انہوں نے بیٹے کو منع کرنے کی بجائے شاباش دی اور اسکو تخریب کاری کی مزید ترغیب دی۔ وہ پنجابی، پٹھان اور بہاری قومیتوں کے سخت خلاف تھیں۔ وہ فوج کو عقل سے عاری، اجڈ اور جاہل قرار دیتی تھیں۔
جہاں آرا امام کے اگرتلہ سازش کیس کے رکن لیفٹیننٹ کمانڈر معظم سے خاندانی تعلقات تھے۔ یہ وہ علیحدگی پسند انسان تھا جس کا کہنا تھا کہ” شیخ مجیب کے چھ پوائنٹ ہیں مگر میرا ایک ہی پوائنٹ ہے بنگال کی آزادی” 23 مارچ 1971 کو بیگم جہاں آرا بیگم کے گھر پر آزاد بنگلہ دیش کا جھنڈا لہرایا گیا اور ان کے تقسیم کردہ سینکڑوں جھنڈے دوسری عمارات پر لہرائے گئے۔
انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل اور کچھ سفارت خانوں پر بھی علیحدگی پسندوں نے آذاد دیش کے جھنڈے لہرائے۔ پورے دن ٹیلیویژن پر علیحدگی پسندوں نے پاکستانی نشریات کو بند رکھا۔ ان اعمال میں جہاں آرا امام کا بیٹا رومی امام اور ان کے ساتھی پیش پیش تھے، جن کے پروگرام بیگم جہاں آرا امام کے گھر میں تیار کئے جاتے تھے۔
مشرقی پاکستان کے بعد کا بنگلا دیش
جب آرمی ایکشن کی خبریں آنے لگیں تو بیگم جہاں آراء امام نے اپنے بیٹوں کو ترغیب دی کہ وہ بارود کو کموڈ کے ذریعہ فلش کر دیں اور اسلحہ کو ایک انڈر گراؤنڈ واٹر ٹینک میں چھپا دیا گیا۔۔ اس کے ساتھ ہی سارا تخریبی لٹریچر دیواروں کے درمیان بند کرا دیا۔
جتنے تخریب کار ان کے گھر آتے ان کی مختلف علاقوں میں رہائش کا ندوبست کرتیں اور خود گاڑی میں چھوڑ کر آتیں کیونکہ بقول ان کے فوجی خواتین کی گاڑیاں چیک نہیں کرتے تھے۔ 26 مارچ کا دن تخریب کاروں اور باغیوں کے لئے بہت سخت تھا۔
فوج نے ڈھاکہ یونیورسٹی کی تلاشی لیناچاہی تو بہت سخت مقابلہ کرنا پڑا۔ اس میں مقابلہ کرنے والے طالب علم اور کچھ اساتذہ بھی مارے گئے۔
ان کی تنظیم سے بیگم جہاں آرا کا خصوصی تعلق تھا ۔انہوں نے وہاں سے بھاگ آنے والے باغیوں اور ان کے خاندانوں کو مختلف جگہوں پر ایڈجسٹ کیا۔ زخمیوں کو مختلف پرائیویٹ ہسپتالوں میں ایڈمٹ کرایا۔ اور ظلم وستم کا خوب پروپیگنڈہ بھی کیا۔
ایسٹ پاکستان رائفلز اور پولیس کی بغاوت کچل دی گئی تو وہ اس پر بہت غمزدہ تھیں۔ وہ اتنی پر غضب تھیں کہ ہر بہاری اور فوجی وردی والے کومردہ دیکھنے کی خواہش مند تھیں جن لوگوں نے آذاد بنگلہ دیش کے جھنڈے لہرائے تھے ان میں سے اکثر مارے گئے جن میں کمانڈر معظم بھی تھا جو ہارڈ کو ر تخریب کار تھا۔
مگر رومی امام نے خبر ملتے ہی اپنے گھر سے جھنڈے اتار لئے تھے اس لئے ان کا گھر محفوظ رہا۔ البتہ جہاں آرا امام، پاکستانی فوج کو اپنی ڈائری میں حیوانوں سے بھی گئے گزرے قرار دے کران کے لئے بد دعائیں کرتی رہیں۔ (جاری ہے)