
میر ہاؤس کالا گوجراں کا دورہ جوکہ محبت اور خلوص کا قلعہ ہے۔ معروف صحافی اور دانشور بیگ راج نے اس دورہ کے حوالے سے اپنے تاثرات بیان کیے ہیں۔ آئیے پڑھتے ہیں۔
یہاں درختوں کی بلندی عامر میر کے بلند ارادوں کی مانند ہے اور لان کی وسعت، دسترخوان کی وسعت کا پتہ دیتی ہے۔
یہ ہاؤس ہی بڑا نہیں یہاں کے مکینوں کے دل بھی بڑے ہیں۔
یہاں مہمانوں کی آمد جاری رہتی ہے۔ندیم ساجد مغل نے صحیح کہا کہ جس روز مہمان نہ آئیں میر صاحب پریشان ہوجاتے ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جس روز کوئی نہ کوئی مہمان نہ ہو۔
ڈاکٹر مرتضیٰ مغل خوش گفتار اور خوش خوراک ہیں۔میر صاحب نے خوش خوراکی ہی نہیں بسیار خوری کا بھی بندوبست کررکھا تھا۔
میر ہاؤس کالا گوجراں: محبت اور خلوص کا قلعہ
ڈاکٹر صاحب نے اجوائین والے پراٹھوں کا خوب صفایا کیا۔بابر مغل اگر خلل نہ ڈالتے تو ڈاکٹر صاحب بسیار خوری کی آخری حد بھی عبور کر جاتے۔
میر صاحب نے میر ہاؤس کے پیڑوں سے اتاری ہوئی شہد پیش کی جسے کھانے سے پورے ماحول میں مٹھاس پھیل گئی۔
میر ہاؤس جہلم میں رونماء ہونے والے کئی تاریخ ساز سیاسی،سماجی فیصلوں کا عینی شاہد ہے۔
میر صاحب خود بھی جیتی جاگتی تاریخ ہیں۔انہیں لوگوں کے نام،ان کے نظریات،واقعات کی جزیات،تاریخ اور جغرافیہ یاد رہتا ہے۔
سٹوڈنٹ لیڈر کے طور پر متعارف ہوئے، بڑے بڑے طاقتور حلقوں کو شکست دیکر ناظم کا الیکشن جیتا،کئی سیاسی تحریکوں میں حصہ لیا۔آجکل ن لیگ میں ہیں اور دل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے رہتے ہیں۔
میر صاحب نے جہلم کی سیاست میں کم عمری میں بزرگی و برتری والا تجربہ حاصل کر لیا ہے۔ وہ مغل ہونے کے حوالے سے مزاجاً بادشاہ (میر) ہیں اور تجربے کی بنیاد پر بادشاہ گر ہیں۔
پہلی بار یہاں آیا تھا تو میر ہاؤس ماتم میں ڈوبا ہوا تھا۔غم سے درخت جھکے ہوئے تھے اور پرندے خاموش تھے۔میر صاحب کا شیر دل بیٹا کار حادثے میں جاں بحق ہوگیا تھا۔
اب کی بار منظر مختلف تھا۔میر صاحب نے اپنا غم چھپا لیا تھا۔
مغل قوم کا پھریرا چار دانگ عالم لہرانے والی تنظیم
"تنظیم مغلیہ جہلم” کی نے ضلع جہلم کے ایک روزہ دورے کا اہتمام کیا تھا۔ شاہی ناشتے کا اہتمام میر ہاؤس میں تھا۔
میر صاحب کے دراز قد اور بااخلاق بیٹے نے عمدہ پزیرائی کی۔ ناشتے کے بعد لان میں خوب گپ شپ ہوئی۔بے ساختہ قہقہے گونجے اور جناب ندیم ساجد مغل نے یہ یاد گار لمحے کیمرے میں محفوظ کر لیے۔