"میرے بچپن کی یادیں اور بابا کٹیا کا بوڑھا پیپل” پاک بحریہ کے سابق کمانڈو جناب محی الدین چودھری کی یادداشتوں پر مشتمل خصوصی تحریر ہے۔
آئیے اس تحریر میں مصنف کا نصف صدی پرانا گاؤں دیکھتے ہیں۔
پاکستان بننے سے بہت پہلے، ہندو سادھو ہمارے گاؤں کے باہر، جہلم دریا کے بیلے میں دھونی رمائے بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک کٹیا بنائی ہوئی تھی۔
جب وہ فوت ہوئے تو ان کو جلانے کے بجائے کٹیا کے ساتھ ہی ایک قطعہ زمین میں دفن کردیا گیا اور اوپر ایک کمرہ بنادیا گیا۔
ارد گرد کی زمین ہندو آبادی نے ان کو دان کردی تھی، جہاں بہت سے درخت لگے ہوئے تھے۔
ہم نے بچپن میں اس بوڑھے پیپل کے علاوہ ایک پرانا شیشم کادرخت بھی دیکھا تھا، جس کے ساتھ ہی ایک بڑا جامن کا درخت بھی موجود تھا۔
ان کے علاوہ چند چھوٹے درخت بھی وہاں موجود تھے، جن کی وجہ سے یہ پورا علاقہ نہایت سایہ دار تھا اور گرمیوں میں یہ جگہ خنک رہتی تھی۔
گرمیوں کےموسم میں اکثر فارغ بزرگ اس درخت کے نیچے محفل سجاتے اور پانسہ وغیرہ کھیلا کرتے تھے۔ نوجوانوں کی ٹولیاں بھی ان درختوں کی چھاؤں میں تاش کی بازیاں لگاتی نظر آتی تھیں۔
میں نے ہوش سنبھالا تو چند بڑے لڑکوں کو اس پیپل کے درخت پر چڑھتے دیکھا۔ میری بھی خواہش تھی کہ میں بھی بڑا ہو کر اس پیپل کی اونچی شاخوں تک جاؤں۔
میرے بچپن کی یادیں:
کچھ عرصہ بعد میں کچھ بڑا ہوا تو اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے بے خوفی سے اس پیپل کے درخت پر چڑھنے کا شوق پورا کرنے لگا اور کچھ عرصہ بعد اس بوڑھے پیپل کی شاخوں پر پھدکتا پھرتا تھا۔
میں ایسی شاخوں تک بھی چلا جاتا تھا جہاں جانے سے بڑے لڑکے بھی گبھراتے تھے۔
- فاتح گھنگریلہ! ریلوے مسافر لوٹنے والے جنات کا قصہ!
- جہلم کا بابا شرف شاہ: ایک کازب کا عبرت آموز واقعہ
عید کے دنوں میں اس پیپل پر پینگیں ڈالی جاتی تھیں۔ ان پینگوں پر جھولے لے کر لڑکیوں کو انمول خوشی کے لمحات حاصل ہوتے تھے۔ اکثر لڑکیاں تو جھولے لیتی ہوئی تھکتی ہی نہیں تھیں۔
میں ان لڑکیوں کا پسندیدہ بھائی تھا۔ جھولا ڈالنے کے لئے بڑی چاپلوسی سے مجھے "میرا سوہنا بھائی” اور "میرا پیارا بھائی” کہہ کر جھولا باندھ دینے کی فرمائش کرتی تھیں۔
میں بھی اپنی دھن میں مشکل سے مشکل جگہ پر جھولا باندھ دیتا، اور یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کمال تھا۔
میں پینگ باندھنے کے بعد ” کانا جھوٹا” لینے کی ضد نہیں کرتا تھا، جبکہ دوسرے لڑکے تو پینگ باندھ کر پہلے جھولے لے کر خوب لطف اندوز ہوتے تھے۔
عالم شعور میں اس بوڑھے پیپل کے اردگرد، اس کی چھاؤں میں گزارے ہوئے بچپن کے وہ لمحے مجھے آج تک یاد ہیں۔ تحت الشعور میں تمام یادیں جمع ہیں اور اکثر خوابوں کی صورت میں بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔
وہ ہم جولی اور وہ بزرگ بھی یاد آتے ہیں اور عید کے موقع پر جھولے باندھنے کے لئے چاپلوسی کرنے والی وہ بہنیں بھی یاد آتی پیں۔
ان میں سے اکثر لوگ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اللہ کریم ان کو غریق رحمت کرے۔ وہ بہنیں جو بڑی ہو کر اپنی اولاد کو بھی ہماری شرارتوں اور بے خوفی کے بارے میں داستانیں سناتی تھیں۔
ماؤں کی بتائی ہوئی باتوں کو بچے بھلاتے نہیں اس لئے وہ بچے بھی ہمارے ساتھ ابھی تک انسیت رکھتے ہیں۔
تعلیم ختم کی تو جلد ہی گاؤں بھی چھوٹ گیا۔ وہ محبت کرنے والے لوگ بھی بچھڑ گئے، مگر وہ بزرگوں کے قہقہے، وہ دوستوں کی مسکراہٹیں اور بہنوں کی وہ محبت میں ابھی تک نہیں بھولا۔
بابا کٹیا کے نزدیک ہی ایک خالی کھیت تھا، جس کو ہم نے فٹبال گراؤنڈ بنا رکھا تھا۔ اس گراؤنڈ پر دوستوں کے ساتھ ہم نے خوب پسینہ بہایا تھا۔
اب بھی گاؤں جاؤں تو یہ ساری جگہیں دیکھنے جاتا ہوں۔ کھیت اب آباد ہیں تاہم بابا کٹیا اجڑ چکا ہے۔ درخت کٹ گئے ہیں، وہ پرانا پیپل کا درخت بھی غائب ہو چکا ہے۔
مگر میرے ذہن میں وہ سارے مناظر ابھی تک محفوظ ہیں۔ بابا کٹیا کی زمین کا زیادہ تر حصہ ارد گرد کے کاشتکاروں نے اپنے کھیتوں کے ساتھ ملا لیا ہے۔
بابا کٹیا اور میرے بچپن کی یادیں:
بابا کٹیا سے اس زمانے میں دریا جہلم چند سو گز کے فاصلے پر تھا۔ وقت کے ساتھ دریا دور چلا گیا ہے، مگر ابھی تک مجھے سرفراز مہر والی ڈابی اور بابے رحمت گنجے والا نالہ یاد ہیں جہاں ہم نے کیچڑ میں کرالنگ اور پانی میں تیرنا سیکھا۔
جب ہم سخت گرمی میں پسینے سے شرابور ہو جاتے تو مائیں اور بہنیں یاد آتی ہیں جو ہمیں اس حالت میں دیکھ کے ” پاگل” اور "جھلا” قرار دیتی تھیں۔
آج بھی یہ جھلا اور پاگل ان جگہوں پر جاکر وہ آوازیں سننے کا اشتیاق رکھتا ہے۔ مگر یہ سحر اس وقت ٹوٹ جاتا ہے جب کوئی بچہ یا گذرتا ہوا آدمی سلام کہتا ہے۔
اب کی بار گاؤں گیا تو میں بھی پچھتر سالہ بزرگ بن چکا تھا۔ اب نہ بابا کٹیا کی کوٹھڑی باقی ہے نہ ہی کٹیا کا نشان، نہ وہ بوڑھا پیپل موجود ہے نہ اس کے اردگرد سایہ دار درخت۔
میرا فٹ بال گراؤنڈ بھی ختم ہوگیا ہے۔ بابا رحمت گنجے کا نالہ بھی غائب ہے اور سرفراز والا بیلہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ وہ سارا پرانا منظر خواب و خیال ہو کر رہ گیا ہے۔
وہ سارے قابل احترام بزرگ اور اکثر ساتھی بھی راہی ملک عدم ہو چکے ہیں۔ وہ شفیق مائیں اور بہنیں بھی ایک ایک کرکے اگلے جہان کو سدھار گئیں۔ چند ساتھی زندہ ہیں مگر بس زندہ ہی ہیں۔
گاؤں کی سادگی، خلوص اور محبت کا سنہرا دور اب تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ گاؤں کی پوری دنیا ہی بدل چکی ہے۔
ماضی کے لوگ اور رہن سہن:
موجودہ دور میں بہت ساری اچھی تبدیلیاں بھی آئی ہیں ۔ ماضی کے مقابلے میں لوگوں کا رہن سہن بڑی حد تک بہتر ہوا ہے، مکانات عمدہ بن گئے ہیں۔ مگر انسانی رویوں کی تبدیلی بہت حوصلہ شکن ہے۔
اکثر لوگ اپنے معیار زندگی کو بلند کرنے کی خاطر ملک سے باہر منتقل ہو چکے ہیں۔ لوگوں کی زندگی کا محور ہی مادی سہولتیں ہیں مگر معیار انسانیت بہت پست ہوگیا ہے۔
گاؤں کے اکثر نوجوان نشے کی لت میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ جوا بازی، کتوں اور مرغوں کی لڑائیاں کرانا اکثر کا پیشہ ہے، کبوتر بازی کے شوقین بھی بہت نظر آتے ہیں۔
لڑکیاں ضرور اعلیٰ تعلیم کے حصول کی شوقین ہیں مگر نوجوان لڑکے میٹرک کے بعد باہر جانے کے چکروں میں پڑ جاتے ہیں۔
نوجوانوں کی پسندیدہ شخصیات علاقے کے بدمعاش اور غنڈے ہیں اور یہی لوگ یہاں کی بنیادی سیاست پر غالب ہیں۔
گاؤں کے اکثر لوگ اپنے مسائل کا ادراک نہیں رکھتے، ان کا نقطہ نظر یہی ہے کہ جب دولت مل جائے تو مسئلے خود بخود ختم ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے زیادہ تر لوگ مادی وسائل کی دوڑ میں مشغول ہیں۔
مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ میرا نہیں بلکہ کوئی اجنبی گاؤں ہے۔ نہ پرانی چیزیں موجود ہیں اور نہ ہی وہ پرانے لوگ۔ پرانے رسم و رواج نظر آتے ہیں اور نہ ہی وہ پرانے پر خلوص رویے دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری جانب اپنی حالت کچھ یوں ہے کہ:
- کچھ کہوں تو کیا کہوں؟ کس سے کہوں؟
- میں خود ہی اپنا سوال، اپنا جواب