سوچیں کہ آپ سڑک پر کہیں جارہے ہوں اور سامنے سے چند مچھلیاں بھی مٹکتی ہوئے آرہی ہوں ۔۔۔۔۔ آپ اس کو حقیقت سمجھیں گے ۔۔۔۔ یا کوئی خواب سمجھ کر آنکھیں ملنے لگیں گے ۔۔۔۔۔ پہلے تو آپ اسے ایک خواب ہی سمجھیں گے کیونکہ مچھلی تو پانی کے بغیر زندہ بھی نہیں رہ سکتی ۔۔۔۔۔ کجا کہ باقاعدہ خشکی پر مٹرگشت کرتی دکھائی دے ۔۔۔۔ عام سوچنے میں یہ بات مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ لیکن یہ بالکل بھی مزاق نہیں ہے، بلکہ حقیقت ہے ۔۔۔۔۔ خشکی پر چلنے والی مچھلی کو ایک ایک آدھ بھی نہیں ہے ۔۔۔۔۔ بلکہ گیارہ اقسام کی مچھلیاں خشکی پر چل سکتی ہیں ۔۔۔۔ یہ مچھلیاں تیرنے کے ساتھ ساتھ سمندری فرش پر بھی چلتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی جب سائنسدانوں نے "ہل اسٹریم لوچ” نامی فش کے ڈھانچوں کا تفصیلی مشاہدہ کیا ۔۔۔۔ تحقیق کے مطابق "اینجل فِش” بھی یہ صلاحیت رکھتی ہے، جو غاروں میں رہتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مچھلیوں کے پیڑو کے پر (یعنی فِن) اور مرکزی ہڈی کے درمیان ایک خاص تعلق ہوتا ہے ۔۔۔۔ اسی تعلق کے سبب یہ مچھلیاں خشکی پر چل سکتی ہیں۔ ماہرین نے "لوچ فش” کی دیگر 29 سپیشیز (انواع) کا بھی جائزہ لیا، جس سے معلوم ہوا کہ ان میں سے دس یا گیارہ دیگر مچھلیاں بھی ایسی ہیں جو اسی طرح کی خصوصیات کی حامل ہیں ۔۔۔۔ یعنی وہ خشکی پر چل پھر سکتی ہیں۔
ادھر مچھلیوں کے ایک ماہرِ "ریکرے رینڈال” کا کہنا ہے کہ عموماً مچھلیوں کے پیڑو کے جوڑ اور مرکزی ہڈی کے مابین کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ لیکن یہ تعلق پہلے غاروں میں چلنے والی اینجل فش میں دکھائی دیا اور اب یہ تعلق "ہِل اسٹریم لوچ” نامی مچھلی کے خاندان میں نظر آیا ہے۔۔۔۔
سائنسدانوں کی رائے میں ان مچھلیوں میں خشکی پر چلنے کی صلاحیت دراصل مخالف سمت میں بہنے والے تیز رفتار پانی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے ۔۔۔۔ یہ صلاحیت کوئی انقلاب بھی نہیں ہے بلکہ کروڑوں برس کے ارتقا کا نتیجہ ہے ۔۔۔۔۔ غالبا اسی لیے یہ مچھلیاں نیچے گرتی آبشاروں اور جھرنوں کے گرد ہی پائی جاتی ہیں۔۔۔۔
حیاتیاتی سائنسدانوں نے ان مچھلیوں کے ڈی این اے کا بھی جائزہ لیا اور اس کے علاوہ "کمپیوٹر ٹوموگرافی” سے بھی ان مچھلیوں کے ڈھانچوں کا مشاہدہ کیا ہے ۔۔۔۔۔ اس تحقیق سے سائنسدانوں کو یہ بھی معلوم ہوا کہ خشکی پر چلنے کی یہ صلاحیت مچھلیوں میں جینیتای طور پر ایک سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔ "جرنل آف مارفالوجی” میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے انسان کو مچھلیوں کا ارتقا اور مچھلیوں میں چلنے کی صلاحیت کو تفصیلی طور پر سمجھنے کا بھی موقع ملے گا۔