واقعہ حرہ قسط 1، واقعہ کا پس منظر! محی الدین چودھری پاک بحریہ کے سابق ریٹائرڈ افسر اور کمانڈو رہے ہیں۔ تاریخ پر گہری تحقیقی نظر رکھتے ہیں۔ محی الدین چودھری اسلام کی عسکری اور سیاسی تاریخ پر کئی مقالہ جات لکھ چکے ہیں۔
واقعہ حرہ سے متعلق یہ قسط وار تفصیلی مقالہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
عرض مصنف:
واقعہ حرہ ایک ایسا واقعہ ہے، جس کی تفصیلات کو مذہبی اور تاریخی طور بہت زیادہ بیان کیا جاتا ہے۔ یزید کے جرائم میں اس واقعہ کا نام بھی نمایاں ہے۔
مدینہ میں ہونے والی جنگ اور اس کے بعد کے واقعات کو بہت بڑھا چڑھا کے بیان کیا جاتا ہے، اور بعض کرداروں سے نفرت کی وجہ سے حقیقت کو پروپیگنڈہ کے طوفان میں گم کردیا گیا ہے۔
عام لوگ واقعہ حرہ کی اصل تفصیل سے کم ہی واقف ہیں۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ شامیوں نے مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے، مسجد کی توہین کی، اصحاب رسول کے گھروں کو لوٹا اور تین دن کے لئے مدینہ کی انسانی جانوں، مال و دولت اور عزت و حرمت کو لوٹنے کی اجازت دے دی گئی۔
ہم نے اس بارے میں اسلامی تاریخ کو بار بار پڑھا۔ یزید سے نفرت اپنی جگہہ مگر حقائق کو سامنے لانا بھی ضروری تھا اس لئے یہ تجزیاتی مقالہ لکھا۔
امید ہے اہل علم اس کو توجہ سے پڑھیں گے اور عام مسلمان بھی حقائق سے آگاہ ہوسکیں گے۔ اس طرح واقعات کو صحیع تاریخی تناظر میں دیکھا جاسکے۔
مدینہ کا وفد دمشق میں:
واقعہ حرہ سن 62 ہجری میں پیش آیا۔ اہل مدینہ نے ابھی تک حضرت ابن زبیر کی بیعت نہیں کی تھی۔ انہوں نے ایک وفد یزید کی طرف دمشق روانہ کیا۔
اس میں عبداللہ بن حنظلہ انصاری، عبداللہ بن عمرو مخزومی، منذر بن زبیر اور کئی اور اشراف مدینہ شامل تھے۔
اموی حکمران یزید نے اس وفد سے اچھا سلوک کیا، مگر اُن کی شرائط کو قبولیت نہ بخشی اور نہ ہی اہل مدینہ کے اس وفد کو کوئی خاص اہمیت دی۔
رخصتی کے وقت سب کو معمولی انعام و اکرام سے بھی سرفراز کیا مگر یہ لوگ خوش نہ تھے کیونکہ ان کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی تھی، جس کو ان سرداروں نے توہین کے مترادف گردانا۔
واقعہ حرہ کا پس منظر، سُبکی کا بدلہ:
یہ لوگ دمشق سے لوٹے تو وہ یزید سے سخت ناراض تھے۔ ان لوگوں نے یزید کے کردار کے بارے میں خوب پروپیگنڈہ کیا۔
انہوں نے یزید کو برا بھلا کہا، اور اس کے بارے میں بے دین، شرابی، طنبورہ بجانے والے جیسے الزامات لگائے۔
اِن لوگوں نے بتایا کہ یزید ناچنے گانے والی عورتوں کو نوازتا ہے، وہ کتوں سے کھیلتا ہے اور لونڈیوں اور موالیوں کی محفلوں میں خوش رہتا ہے۔
یہ پروپیگنڈہ بہت پُراثر تھا اور اہل مدینہ میں اس کا بہت زیادہ اثر ہوا۔ اب تک یزید کی کردار کشی کے لئے یہی الزامات استعمال ہوتے چلے آئے ہے۔
اس کے بعد اہل مدینہ کے سرداروں نے اعلان کیا "کہ گواہ رہنا ہم نے یزید کو خلافت سے معزول کیا”۔
عبداللّٰہ بن حنظلہ کی حکومت
منذر بن زبیر کی کوششوں کے باوجود مدینہ والوں نے حضرت ابن زبیر کی خلافت کو ماننے کی بجائے عبداللّٰہ بن حنظلہ غسیل ملائکہ کو اپنا حاکم بنا لیا۔
وہ ایک بہادر، جری اور اعلیٰ شخصیت کے مالک تھے، مگر امور حکمرانی کے بارے میں ابھی ناتجربہ کار تھے۔
منذر بن زبیر جب اہل مدینہ کو حضرت عبداللہ ابن زبیر کی خلافت پر راضی نہ کرسکے تو مایوس ہو کر مدینہ سے چلے گئے۔
ادھر مدینہ میں یزید کے خلاف زوردار نفرت انگیز پروپیگنڈہ شروع کردیا گیا اور مدینہ منورہ میں رہائش پذیر بنو امیہ کا بائیکاٹ کرکے، اُن کی زندگی اجیرن کردی گئی۔
صحابی رسول حضرت نعمان بن بشیر کی مدینہ آمد:
یزید نے حضرت نعمان بن بشیر انصاری کو مدینہ بھیجا تاکہ وہ پروپیگنڈہ کا رد کرسکیں اور عوام کو اصل صورت حال واضع کرسکیں۔
وہ مدینہ پہنچے اور انہوں نے کہا "میں صحابی رسول ہوں اور بتارہا ہوں کہ یہ سب جھوٹ ہے، جو تمہیں بتایا گیا ہے، کیونکہ یزید پانچ وقت مسجد جامع دمشق میں مسلمانوں کو نماز پڑھاتا ہے اور اس کی اقتداء میں سینکڑوں صحابی اور تابعی نماز پڑھتے ہیں۔ یزید میں بظاہر کوئی شرعی عیب نہیں ورنہ صحابہ کرام اس کی تقلید کیوں کریں؟”
مگر عوام الناس میں یزید کے خلاف نفرت کا طوفان برپا تھا ، جو حضرت امام حسین کی شہادت کے بعد بے قابو ہوچکا تھا۔
اس نفرت میں اس منفی پروپیگنڈہ نے اور زیادہ شدت پیدا کردی تھی۔ لوگ یزید سے سخت متنفر تھے۔
حضرت نعمان بن بشیر نے اہل مدینہ کو بتایا کہ "تم ایک نازک شاخ پر آشیانہ بنارہے ہو، تمہاری جمعیت اتنی نہیں کہ شام کے لشکر جرار کا مقابلہ کرسکو”۔
مگر اہل مدینہ بہت پر جوش تھے اور یزید سے بہت زیادہ متنفر بھی۔
حضرت نعمان نے انہیں وارننگ دی کہ تم لوگ قوم کو آفت میں مبتلاء کرنے کے درپے ہو۔ میں نہیں چاہتا کہ میری قوم مسجدوں، گھروں اور ویرانوں میں قتل کی جائے۔
جب حضرت نعمان بن بشیر کو کامیابی حاصل نہ ہوئی، اور وہ نفرت کے اس سخت سیلاب کے سامنے کوئی بند باندھنے میں ناکام ہوگئے تو وہ واپس دمشق لوٹ گئے۔
حضرت نعمان نے مدینہ سے رخصت ہوتے ہوئے فرمایا، "اے میرے خدایا! اس بے بس قوم کو عقل اور سمجھ عطاکر، ان کو خطرے کا اندازہ ہی نہیں”۔
(جاری ہے)