
بیگم کا اختیار کوئی دوسرا کیسے استعمال کرسکتا ہے؟ مصطفےٰ صفدر بیگ کا یہ کالم ہلکے پھلکے انداز (لائٹر موڈ) میں لکھا گیا، لیکن اس میں ایک گہرا سبق بھی پوشیدہ ہے۔ آئیے کالم پڑھتے ہیں۔
نیوز ڈیسک پر رکھے ٹیلی فون کی گھنٹی زور سے بجی۔
"ہیلو! میں طلعت بول رہا ہوں!” میں نے رسیور اٹھایا تو دوسری طرف سے وہی سپاٹ آواز سنائی دی، جسے لاکھوں میں بھی پہچانا جاسکتا تھا۔
یہ سید طلعت حسین تھے، آج نیوز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نیوز۔
یہ سید طلعت حسین کا خاص انداز تھا، وہ جب بھی نیوز ڈیسک پر فون کرتے تو مختصرا اپنا تعارف ضرورت کراتے تھے۔
یہ انداز کوئی دوسرا خال خال ہی اپناتا تھا۔ ورنہ تو آفس بوائے بھی فون کرتا تو اپنا نام بتانے کی بجائے یہی پوچھتا، "کون بولا رہا ہے؟”
آنے والے برسوں میں، میں نے بھی یہ عادت اپنانے کی بھرپور کوشش کی۔
میں گلا صاف کرتے ہوئے ادب سے بولا، "جی سر؟”
مجھے اندازہ ہوگیا تھا، ضرور کوئی اہم بات ہوگی۔ ورنہ طلعت حسین اِس طرح ڈیسک پر بہت کم فون کرتے تھے۔
ویسے بھی وہ اتوار کا دن تھا۔ اتوار کے روز اسلام آباد میں تعطیل ہونے کی وجہ سے نیوز ڈیسک پر کوئی اتنا خاص کام بھی نہیں ہوتا تھا۔
طارق فاطمی تھڑ تھڑ کانپ رہے تھے!
اُس وقت نیوز ڈیسک پر میں اکیلا ہی بیٹھا تھا اور غالبا کسی نیوز اسٹوری کو ایڈٹ کررہا تھا۔
"نیچے سیکیورٹی گیٹ پر طارق فاطمی صاحب کھڑے ہیں، اُنہیں فورا اوپر بلوا کر میرے کمرے میں بٹھادیں، میں تھوڑی دیر میں دفتر پہنچ رہا ہوں”، سید طلعت حسین نے کہا۔
"جی! سر!”۔ دوسری جانب سے فون منقطع ہونے کا اندازہ ہونے کے بعد میں نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائیں تو مجھے سیکیورٹی گیٹ پر بھیجنے کیلئے آفس بوائے سمیت کوئی بھی نظر نہ آیا۔
کسی کو موجود نہ پاکر میں تیزی سے نیچے کی جانب دوڑا۔ تیزی سے باہر جانا اِس لیے بھی ضروری تھا کیونکہ نیوز ڈیسک کو خالی نہیں چھوڑا جاسکتا تھا۔
یہ غالبا سال 2010 کی بات ہے۔ اس وقت ملک دہشت گردی کی بدترین لپیٹ میں تھا۔
سرکاری اداروں سمیت نیوز دفاتر کو بھی دہشت گردی کے خطرات کا سامنا تھا۔
حفاظتی اقدامات کے تحت ضروری قرار دیا گیا تھا کہ آج نیوز میں آنے والوں کی اچھی طرح شناخت پڑتال کی جائے۔ بصورت دیگر نیوز ڈیسک یا متعلقہ شعبہ کے انچارج سے انٹرکام پر اجازت لے لی جائے۔
لیکن آج نیوز کے مواصلاتی نظام میں اُس روز کوئی خرابی تھی (ویسے یہ خرابی اکثر رہتی تھی)، جس کی وجہ سے سیکیورٹی گارڈ انٹرکام پر اوپر فون کرسکتا تھا نہ ہی اُسے لینڈ لائن کے ذریعے تیسری منزل پر موجود نیوز ڈیسک سے کوئی ہدایت دی جاسکتی تھی۔
میں سیڑھیاں پھلانگتا، سیکیورٹی گیٹ پر پہنچا تو سامنے طارق فاطمی کھڑے غصے سے تھڑتھڑ کانپ رہے تھے۔
"میں طارق فاطمی! میں طارق فاطمی!”۔ وہ بڑبڑائے جارہے تھے۔
ایک سیکیورٹی گارڈ کا اختیار اور بے بس سفارتکار:
میرے کچھ کہنے یا پوچھنے سے پہلے ہی سیکیورٹی گارڈ روایتی پوٹھوہاری لہجے میں بولا "سر! میں اِن بزرگوں سے شناختی کارڈ مانگ رہا ہوں، یہ کارڈ دینے یا اجازت لینے کی بجائے مجھ پر غصہ کیے جارہے ہیں”۔
سیکیورٹی خطرات کی وجہ سے سیکیورٹی گارڈز کو انتہائی سختی سے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ شناخت کے بغیر کسی کو اوپر اندر نہ جانے دیں۔
آج نیوز کے عملے کیلئے بھی سختی سے ہدایت تھی کہ وہ اپنا آفس شناختی گارڈ گلے میں آویزاں کرکے رکھیں۔
ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصہ میں، میں نے معاملے کی نذاکت کو سمجھ کر سیکیورٹی گارڈ کو ڈانٹا۔
"معذرت سر! آپ میرے ساتھ آئیں” میں نے وضاحت کی لیکن غصے میں طارق فاطمی لفٹ کی جانب بڑھ گئے۔
لفٹ بھی کئی روز خراب پڑی تھی، میں نے احترام کے ساتھ اُنہیں سیڑھیوں سے اوپر آنے کا کہا تو وہ بڑ بڑاتے ہوئے میرے ساتھ ہولیے۔
میں نے سیڑھیاں چڑھتے وقت نیچے موجود سیکیورٹی انچارج کو دیکھا تو غصے سے اُس کے نتھنے بھی پھول رہے تھے، جیسے وہ اندر ہی اندر کھول رہا ہو۔
میں نے طارق فاطمی کی سید طلعت حسین کے دفتر تک راہنمائی کی اور واپس نیوز روم میں پہنچ کر طلعت حسین صاحب کو آگاہ کردیا۔
کچھ دیر بعد طلعت صاحب بھی پہنچ گئے!
یہ تو معلوم نہیں کہ اُس روز اُن کی ملاقات کا کیا مقصد تھا، لیکن بعد ازاں یہ ضرور معلوم ہوا کہ سیکیورٹی گیٹ کے باہر موجود کار میں طارق فاطمی کی بیگم بھی موجود تھیں۔
طارق فاطمی کو سیکیورٹی گیٹ پر پندرہ منٹ تک جس "سیکیورٹی چیک اپ” سے گزرنا پڑا، مبینہ طور پر بیگم صاحبہ یہ سارا منظر دیکھ رہی تھیں۔
مجھے جب بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے، تو اُس کے ساتھ ہی مجھے اُس سیکیورٹی گارڈ کو سونپا گیا اختیار بھی یاد آجاتا ہے۔
اِسی اختیار کی وجہ سے سیکیورٹی گارڈ نے ایک طاقتور ترین سفارت کار کو پندرہ منٹ تک آج نیوز کے گیٹ پر روکے رکھا۔
جب بھی کسی چھوٹے بڑے اختیار کی بات آتی ہے تو مجھے بے اختیار یہ واقعہ یاد آجاتا ہے۔
کوئی اختیار چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا بلکہ اختیار تو بس اختیار ہوتا ہے۔ یہ ایک سیکیورٹی گارڈ کا اختیار ہو یا ایک وزیراعظم کا اختیار ہو۔
سیکیورٹی گارڈ چاہے تو ایک طاقتور سفارت کار کو کئی منٹ تک گیٹ پر روکے رکھے، اور ایک وزیراعظم چاہے تو طاقتور عہدے پر ایک طاقتور شخص کے تقرری کا نوٹیفیکیشن کئی دن روکے رکھے۔
اختیار کے استعمال سے بھی کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوتا۔ مسئلہ صرف وقت ہوتا ہے، جب بیگم کے سامنے آپ کی سُبکی ہورہی ہو۔
سُبکی تو کوئی بھی برداشت نہیں کرتا اور بیگم کے سامنے سبکی تو کوئی برداشت نہیں کرتا۔
ایسا شاید اس لیے بھی ہے کہ سُبکی تو صرف بیگم کا اختیار ہوتا ہے، اور بیگم کا اختیار کوئی دوسرا کیسے استعمال کرسکتا ہے؟