فاتح گھنگریلہ! جہلم کے قریب ریلوے کے مسافر لوٹنے والے جنات کو شکست دینے والے شخص کی کہانی، جس نے "جنات” کو گلے سے دبوچ لیا تھا۔ یہ حقیقی کہانی محی الدین چودھری نے لکھی ہے۔
راولپنڈی سے جہلم کی طرف آئیں تو مندرہ کے قریب ایک ریلوے اسٹیشن واقع ہے جس کا نام گھنگریلہ ہے۔
اس اسٹیشن کی خوبی یہ کہ یہاں جی ٹی روڈ اور ریلوے لائین دونوں ساتھ ساتھ گزرتی ہیں۔
کسی زمانے میں اس ریلوے اسٹیشن کے اکلوتے پلیٹ فارم پر رات کو دو کیروسین لیمپ جلا کرتے تھے۔ جن کی روشنی سر شام ہی وہاں جادوئی سا ماحول پیدا کر دیتی تھی۔
اس زمانے ایک پسنجر ٹرین شام کے وقت جہلم کی طرف سے آیا کرتی تھی۔ ارد گرد گاؤں کے فوجی جوان اکثر اس ٹرین پر سفر کرتے تھے۔
اسٹیشن پر برگد کے بہت بڑے اور بوڑھے درخت تھے جو ماحول کو اور زیادہ سنسان اور پراسرار بنانے میں مدد کرتے تھے۔
مشہور تھا کہ وہاں برگد کے ان بوڑھے اور گھنے درختوں پر جنات رہتے ہیں جو اکثر لوگوں کا سامان ہی غائب کر دیتے تھے۔ اس لئے شام کو آنے والی پسنجر ٹرین کے مسافر بہت احتیاط برتتے تھے۔
ہمارا دوست راجہ انار گل اسی علاقہ کا رہنے والا تھا۔ وہ پاکستان نیوی کا ایک کڑیل سپاہی تھا۔ وہ چھ فٹ دو انچ لمبا لحیم شحیم نوجوان تھا۔
اس کی بڑی بڑی مونچھیں اس کے چہرے کو مزید پر رعب بنادیتی تھیں۔ عام طور پر وہ بہت صلح جو انسان تھا مگر ایک دفعہ غصے میں آجاتا تو مخالف کی خوب دُرگت بناتا۔
بقول شخصے مخالف کو گھر چھوڑ کر آ تا۔ ایک دفعہ وہ کراچی سے میل ٹرین کے ذریعہ لالہ موسیٰ پہنچا اور وہاں سے گھنگریلہ کے لئے پسنجر ٹرین پکڑی۔
فاتح گھنگریلہ اور مسافر لوٹنے والے جنات
اُس وقت سورج ڈوبنے والا تھا، جب گاڑی گھنگریلہ اسٹیشن پر رکی تو وہ اس دن گاڑی سے آنے والا اکلوتا مسافر تھا۔
اس کے بھائیوں نے اُسے لینے آنا تھا مگر پلیٹ فارم پر کوئی نظر نہیں آیا۔
جلد ہی وہاں کا اکلوتا قلی اُس کے پاس آیا اور بولا "بابو جی سامان سڑک تک پہنچا دوں؟”
انار گل نےجواب دیا "نہیں جناب! میرے بھائی آنے والے ہیں” اب انار گل نے سوچا جب تک بھائی آتے ہیں میں ہاتھ منہ پی دھو لوں۔
اس کے پاس ایک ٹین کا درمیانے سائز کا بکس تھا۔ اس نے بکس کو بینچ پر رکھا اور تالہ کھول کر تولیہ نکالا، اور بکس کو تالا لگائے بغیر وہ نزدیک لگی پانی کی ٹونٹی کی طرف بڑھا۔
اس نے منہ پر پہلا چھینٹا ہی مارا تھا کہ اسے بکس کے گرنے کی آواز آئی۔
وہ ادھر متوجہ ہوا تو بکس دوفٹ ہوا میں معلق تھا اور بکس کے اندر کا سامان زیادہ تر بینچ کے اوپر بکھرا ہوا تھا۔
اس نے جست لگائی اور اس رسی کو پکڑ لیا جو بکس کو اوپر لے جا رہی تھی، اور رسی کو ایسے جھٹکے دیے کہ اوپر کھینچنے والا شخص بھی ٹہنے سے نیچے لٹک گیا۔
انار گل نےغصے میں آکر رسی کو ایسے بل دئے کہ اس آدمی کو نیچے ہی آنا پڑا اور اب وہ انار گل کے قہر کا نشانہ بن گیا۔
اس نے اس چور کو اتنا مارا کہ وہ پلیٹ فارم پر منہ کے بل گر پڑا۔ اتنےمیں انار گل کے دونوں بھائی بھی آگئے۔
اس نے چھوٹے بھائی کو کہا "تم سامان اٹھا کر واپس بکس میں ڈال لو۔ میں اس چور کی مزید مرمت کرلوں”۔
مگر اس کے بڑے بھائی نے منع کر دیا کہ بس کر اور مارا تو یہ مر جائے گا۔
مسافر لوٹنے والے جنات
اتنےمیں پلیٹ فارم کی دوسری سائڈ سے قلی اور سٹیشن کے عملہ کا ایک آدمی آگیا۔ انہوں نے بیچ بچاؤ کرانے کی کوشش کی۔
اب انار گل نے قلی کو گلے سے پکڑلیا کہ رسی بکس کے ساتھ باندھنے والا تو ہی تھا۔ اس کو ابھی دو تھپٹر ہی لگے تھے کہ اس قلی نے مان لیا
"ہم چور سے مل کر اکیلے مسافروں کا سامان برگد کی گھنی شاخوں میں کھینچ لیتے تھے اور مشہور کر رکھا تھا کہ ان برگد کے درختوں پر جنات ہیں جو سامان غائب کردیتے ہیں”۔
اس طرح جب یہ یہ واقعہ عام ہوا تو یہ جناتی خوف تو ختم ہوا، اور ہم لوگوں نے اس واقعہ کے بعد انار گل کو متفقہ طور پر ” فاتح گھنگریلہ” قرار دے دیا۔
اس چور اور قلی کو ریلوے پولیس کے ذریعہ عدالت میں بھیجا گیا، جہاں اُن دونوں کو تین سال قید بامشقت کی سزا ہوگئی اور اس کے بعد اب تک گھنگریلہ میں دوبارہ کوئی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا۔
اب تو برگد کے چند درخت ہی رہ گئے ہیں باقی ریلوے نے کٹوا دیے ہیں۔ ہمارا وہ جگری دوست راجہ انار گل بھی اب اس فانی دنیا میں موجود نہیں۔
راجہ انار گُل چند سال پہلے اس فانی دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اب تو گھنگریلہ پر کوئی ٹرین بھی نہیں رکتی۔ بس برائے نام ریلوے سٹیشن ہی رہ گیا ہے۔
مگر میں جب بھی یہاں سے گزرتا ہوں تو ہمارا وہ دیرینہ گہرا دوست راجہ انار گل بہت یاد آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُسے جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ! آمین