
"لنڈی کوتل کی لالٹین” معروف قلمکار سجاد اظہر کی نثری نظموں کا مجموعہ ہے۔ آئیے اس پر مصطفٰے صفدر بیگ کا اظہاریہ پڑھتے ہیں۔
بچپن میں چھٹیوں میں ننھیال کے گاؤں جاتے، تو لالٹین ہماری حیرانگی کا باعث بنتی۔
حیران ہوتے کہ شہر میں ہمارے گھر کے برعکس یہ تو بڑا عجیب سا بلب ہے، جسے آپ جہاں مرضی گھماتے پھریں۔
اور لنڈی کوتل کا نام ہم نے "مطالعہ پاکستان” کی آمد سے پہلے معاشرتی علوم کے "دورِ جہالت” میں پڑھا تھا۔
وہی لنڈی کوتل، جہاں افغانوں نے انگریزوں کے قدم باندھ دیے تھے۔
لنڈی کوتل جہاں پاکستان کا آخری ریلوے اسٹیشن بتایا جاتا تھا، ہمارے لیے کوہ قاف جیسا تھا۔
کوہ قاف کے جِن کے اغوا کی کارستانیاں تو ہر کسی نے سنی پڑھی ہوں گی، لیکن بچپن میں زیادہ دیر باہر پھرنے پر ہمیں ڈرایا جاتا تھا کہ "بردہ فروش پٹھان” پکڑ کر لنڈی کوتل لے جائیں گے۔
یوں گھر سے باہر لنڈی کوتل کے "بردہ فروش پٹھانوں” کا خوف طاری رہتا تو ننھیال کے گھر رکھی لالٹین میں سے بل کھاتے دھوئیں میں کبھی کبھی محسوس ہوتا کہ کوئی جِن باقاعدہ ہمیں گھُور رہا ہے۔
یہ خوف ایک عرصہ تک ذہن پر سوار رہا۔ آنے والے برسوں میں اس خوف نے کئی پہلو، رنگ اور بھیس بدلے۔
خوف کے کئی رنگ اور بھیس تو ایسے تھے ہم اُنہیں سمجھ ہی سکے کہ یہ خوف ہے یا کیا ہے؟
خوف دراصل کیا ہے؟ اس کا پردہ برادرم سجاد اظہر نے اپنی نئی کتاب "لنڈی کوتل کی لالٹین” میں چاک کیا ہے۔
لنڈی کوتل کی لالٹین کا خوف
یوں تو اس کتاب میں شامل ہر نظم ایک سے بڑھ کر ایک ہے، لیکن میری نظر میں "ماڈرن کنزیومر” کو حاصل کتاب کہا جاسکتا ہے۔
"اندھیری غاروں میں خوف وہ پہلی چیز تھی
جسے انسان نے اپنے اندر دریافت کرلیا تھا
آنے والے وقتوں میں جتنی تخلیقات ہوئیں
وہ اس ایک دریافت کو مٹانے کیلئے ہوئیں
مگر ہر چیز ایک نیا خوف لے کر آتی ہے
پھر طے ہوا کہ
خوف کو مٹانے کی بجائے
کیوں نہ اِسے پھیلایا جائے
اور مارکیٹ کیا جائے
آج دنیا میں خوف سب سے بڑا کاروبار ہے
اور ہر کوئی
اپنی اپنی حیثیت کے مطابق
اِسے خرید رہا ہے، بیچ رہا ہے”
ماڈرن کنزیومر پڑھنے سے پہلے تک ہم خوف کو محض احساس ہی سمجھتے تھے، لیکن یہ خوف تو "چیز” نکلا ہے، بلکہ بڑی ظالم چیز نکلا ہے۔
وہ چیز، جس کی منڈی سب سے بڑی ہے، جس کا خریدار سب سے زیادہ ہے، جس کی پیداوار سب سے سستی ہے۔
"دہشت میں پلنے والی نسلوں کے نیزے
قلعوں کی دیواروں تک نہیں پہنچتے”
اپنی نظموں میں جو کچھ سجاد اظہر نے کنایوں میں لکھا ہے، وہ عموما اشاروں میں بھی بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اور جو حقائق بین السطور بیان کردیے ہیں، وہ استعاروں میں پرونے کیلئے بھی ہمت درکار ہوتی ہے۔

اَسی کی دہائی میں شعوری منازل طے کرنے والے یہ نظمیں پڑھیں گے تو سمجھیں گے کہ شاید سجاد اظہر کو ٹیلی پیتھی آتی ہے، کیونکہ اِن نظموں میں اُنہی کے اُن دُکھوں کی بات کی گئی ہے، جنہیں وہ ساری عمر خود سے بھی چھپاتے رہتے ہیں۔
جناب افتخار عارف نے اس کتاب کے فلیپ پر لکھا ہے کہ "اگر آپ افسردہ ہونے سے گھبراتے ہوں، تو اس کتاب سے دور رہیے گا”۔
لیکن میرا خیال ہے کہ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ گزشتہ چوہتر برسوں میں کس کس نے، کیوں کیوں اور کیسے کیسے آپ کو خوف بیچ کر آپ کے خواب لوٹ لیے؟ تو یہ نظمیں ایک بار ضرور پڑھیں۔
"پیٹ پر پتھر باندھنے کی
روایتیں سنانے والے
میرے واعظوں کے
اپنے پیٹوں پر
آزار بند بھی مشکل سے ٹھہرتا ہے”
اس عمر میں اب لنڈی کوتل کے "بردہ فروش پٹھان” کا خوف ہے، نہ ہی لالٹیں سے نکلنے والے جِن کا کوئی ڈر ہے، لیکن سجاد اظہر کی نظم "خطبہ” پڑھتا ہوں تو لنڈی کوتل کی لالٹین لکھنے والے کے بارے میں انجانا خوف آن گھیرتا ہے۔