Ultimate magazine theme for WordPress.

مجوزہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور وی لاگرز کا مستقبل

تحریر: سید اشتیاق بخاری ایڈووکیٹ

361
سید اشتیاق بخاری

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (PMDA) بنیادی طور پر کیا ہے؟ میڈیا انڈسٹری بالخصوص صحافی برادری کیلئے اس کے فوائد یا نقصانات کیا ہوسکتے ہیں؟

معروف صحافی اور قانون دان سید اشتیاق مصطفی بخاری ایڈووکیٹ کی یہ چشم کشا تحریر پی ایم ڈی اے کے بارے میں کئی حقائق سامنے لاتی ہے۔ یہ اس سلسلے کی تیسری قسط ہے۔ آئیے پڑھتے ہیں (ادارہ)۔

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور پیمرا

پاکستان میڈیا

مجوزہ قانون کے حوالے سے میرے پڑھنے والوں کو کافی حد تک شناسائی ہوگئی ہوگی کہ یہ قانون کیا ہے اور اس کی خوبیاں اور خامیاں کیا ہیں۔

آج کی قسط میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (PEMRA) کے حوالے سے تقابلی جائزہ لیا جائے گا۔

مگر اس جائزے سے قبل پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی ابتدا اور ترویج کے حوالے سے مختصر آشنائی ضروری ہے۔

یہ اس لیے تاکہ پڑھنے والوں کو الیکٹرانک میڈیا کے بارے میں آگاہی ہو سکے تب ہی وہ الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی اور مجوزہ قانون کے تقابلی جائزہ کو بہتر انداز میں سمجھ پائیں گے۔

پاکستان کے قیام سے قبل ہی لاہور، ڈھاکہ اور پشاور میں ریڈیو سٹیشن قائم ہو چکے تھے، جہاں سے سامعین کو تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا جاتا تھا۔

اس طرح ملک بھر کے طول و عرض میں ریڈیو کی نشریات پہنچ گئی اور اس وقت ایف ایم اور اے ایم سسٹم کے تین سو کے لگ بھگ ریڈیو سٹیشن 98 فیصد آبادی تک اپنی نشریات پہنچا رہی ہے۔

تاہم ٹیلی ویژن کی ابتدا نومبر 1964 میں لاہور سےہوئی جسکی نشریات 3 گھنٹے پہ محیط تھی اور یہ بلیک اینڈ وائٹ نشریات پیش کرتا تھا ایک ماہ بعد ڈھاکہ میں ٹیلی ویژن سٹیشن قائم ہوا۔

یوں پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کی بنیاد پڑی جو کمپنیز ایکٹ 1913 کے تحت معرض وجود میں آیا تھا، تاہم 1971 میں صدر بھٹو نے اسے قومیا لیا۔

یوں اسے سرکاری ٹی وی کا درجہ حاصل ہوا۔ اس کے بعد 1976میں اسکی رنگین نشریات شروع ہوئی اور پھر 1989 میں نیم سرکاری ٹی وی پیپلز ٹیلی ویژن نیٹ ورک قائم ہوا۔

غیرملکی نشریات کی آمد

پاکستان میڈیا

اسی دور میں پاکستان میں ڈش اینٹینا کے ذریعے بین الاقوامی چینلز کی نشریات آنا شروع ہوگئیں۔

اس ضمن میں ملک میں کسی طرح کا کوئی الیکٹرانک میڈیا کا قانون نہ تھا اس لیے جہاں جہاں ڈش انٹینا کی سہولت عوام کو دستیاب تھی انھوں نے دل بھر کر چینلز دیکھنے شروع کیے۔

اسی گہما گہمی میں 1991 میں پی ٹی وی نے اپنی سیٹلائٹ نشریات کا آغاز کیا اور پھر ملک میں ایک الیکٹرانک میڈیا کاانقلاب برپا ہو گیا۔

اسی دور میں کراچی میں محدود پیمانے پہ کیبل ٹی وی کا بھی آغاز ہوا اور پھر چل سو چل تاہم 1997 میں پہلی دفعہ الیکٹرانک میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اس کا متعد تیکنیکی نظام PTA کے تحت کر دیا گیا۔

یوں الیکٹرانک میڈیا کے مختلف شعبہ جات کے لائسنس جاری کرنے کا عمل پہلی دفعہ شروع ہوا۔

اس سے صرف ڈش انٹینا کے ذریعے چینلز کی سلیکشن اور ایسے چینلز کی ڈسٹری بیوشن اور غیر اخلاقی پروگراموں کی روک تھام ہی کی جاسکی جو پاکستانی معاشرے سے ٹکراتے تھے۔

اسی بھاگم دوڑ میں انڈس ویژن کے نام سے سن 2000 میں پہلا نجی ٹیلی ویژن قائم ہوا اس کے بعد 2001 میں ARY اور 2002 میں جیو ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات شروع کر دی۔

چونکہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی نشریات اور دیگر امور کے حوالے سے کوئی خاص قانون موجود نہیں تھا اسی وجہ سے جنرل مشرف کی حکومت ان پرائیویٹ چینلز کو کام کرنے سے نہ روک سکی۔

انٹرنیٹ کے استعمال نے اس معاملے کو اور سنگین بنادیا تاہم اس نئے انقلاب کے آگے بند باندھنے کے لیے جنرل مشرف نے 2002 میں ایک آرڈیننس جاری کیا۔

پیمرا آرڈیننس کیا ہے؟

اس آرڈیننس کے تحت پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (PEMRA) قائم ہوئی۔ جس کا بنیادی مقصد پرائیویٹ ٹی وی چینلز اور ایف ایم ریڈیو کے نظام کو ریگولیٹ کرنا تھا۔

اس اتھارٹی کے قیام کے بعد متعدد پرائیویٹ چینلز اور ایف ایم ع اے ایم ریڈیو سٹیشن قائم ہوئے جنھیں باقاعدہ لائسنس جاری ہوئے۔

اس وقت ک میں پیمرا کی جاری کردہ لسٹ کے مطابق دس تیکنیکی نظام کے تحت 85 ٹی وی چینلز کو لائیسنس جاری کیے ہیں.

دوسری جانب پرائیویٹ ٹی وی چینلز اور اداروں کی تنظیم پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن (PBA ) کے ممبران کی تعداد 105 ہے، جن میں ایسوسی ایٹ اور فل ممبرز دونوں طرح کے شامل ہیں۔

پیمرا آرڈیننس 2002 میں ایک شق خاص طور پر شامل کی گئی تھی کہ ایسا شخص یا ادارے کو ملک میں کسی بھی اشاعتی ادارے یعنی اخبار کا مالک ہوگا اسے ٹی وی چینل کھولنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اس وجہ سے جنرل مشرف اور جیو نیٹ ورک کے درمیان خاصے اختلافات رہے اور وہ وقت بھی آیا جب جیو کو اپنی نشریات دبئی سے نشر کرنے پڑیں۔

تاہم بدلتے حالات کے تحت جنرل مشرف کے ایماء پر شوکت عزیز کی حکومت نے 2007 میں بذریعہ ترمیم یہ شرط ختم کرکے اس لڑائی کو ختم کیا۔

الیکٹرانک میڈیا کے اجرا اور تنوع کی تاریخ

اس الیکٹرانک میڈیا کے اجرا اور تنوع کی تاریخ کے بعد ہم جائزہ لیتے ہیں۔

پیمرا ایکٹ 2007 کا جو ترمیم شدہ شکل ہے پیمرا آرڈیننس 2002 کی دونوں قوانین میں کوئی خاص فرق نہیں فرق صرف آرڈیننس اور ایکٹ کا اور جدید دور کے نئے تقاضوں کو شامل کیا گیا۔

مجوزہ قانون PDMA کے نفاذ اور پیمرا ایکٹ 2007 ختم کرنے کا بنیادی مقصد الیکٹرانک میڈیا کی نئی قسم ڈیجیٹل میڈیا کو کنٹرول کرنا ہے۔

یہ بات صراحت سے کہنا ضروری ہے کہ رائج قانون پیمرا ایکٹ 2007 کو منسوخ کر کے پی ایم ڈی اے ایکٹ کے نفاذ سے الیکٹرانک میڈیا پہ کوئی اضافی پابندیاں نہیں لاگو ہوں گی۔

بلکہ پیمرا ایکٹ 2007 اور الیکٹرانک میڈیا ضابطہ اخلاق 2015میں درج قواعد و ضوابط اور شرائط اس مجوزہ قانون میں بھی اسی طرح شامل ہیں۔

ماسوائے جرمانے کی رقم اور قید کی سزا میں اضافہ کے یوں الیکٹرانک میڈیا جو اس وقت ٹی وی اور ریڈیو پہ مشتمل ہے پہ کوئی اضافی قدغن نہیں لگایا جارہا ہے۔

پیمرا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر سزائیں

رائج قانون کے تحت کسی بھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی لائیسنس کے شرائط وضوابط کی خلاف ورزی پہ آج سے قبل یہ سزائین اور جرمانے تھے۔

  • ٹی وی چینلز کی نشریات معطل اور لائیسنس منسوخ اور لائیسنس تجدید نہ کرنا
  • کسی بھی پروگرام اور اینکر پہ پروگرام کرنے حتیٰ کہ کسی دوسرے پروگرام میں بطور مہمان یا تجزیہ کار شرکت پر پابندی اور جرمانے
  • یہ سزائیں پیمرا ایکٹ 2007 کے تحت ہی دی گئی ہیں۔
  • مجوزہ قانون میں بھی یہ ہی شرائط وضوابط اور ضابطہ اخلاق مقرر کیا گیا ہے۔
  • رائج قانون پیمرا ایکٹ 2007 میں کسی بھی رپورٹر، اسائنمنٹ ایڈیٹر، ریسرچر، سب ایڈیٹر، کیمرہ مین اور ہیڈ آف نیوز ڈیسک و ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ کسی بھی فرد پہ انضباطی کارروائی کی کوئی شق موجود نہ ہے۔
  • مجوزہ قانون میں بھی ایسی کوئی شق الیکٹرانک میڈیا کے صحافتی عملہ کے لیے موجود نہ ہے۔

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور نئے قانون میں فرق

رائج قانون پیمرا ایکٹ 2007 میں جعلی یا جھوٹی یا پروپیگنڈہ پہ مبنی خبر اور ضابطہ اخلاق کے منافی فوٹیج یا فلم چلانے پہ صحافتی عملہ پر جرمانہ نہیں۔

یہ جرمانہ چینل انتظامیہ پر عائد کیا جاتا ہے اور مجوزہ قانون میں بھی یہ ہی ہی قانون جاری رکھا گیا ہے۔

رائج قانون پیمرا ایکٹ 2007 میں اتھارٹی کا قیام چیئرمین اور ممبران کی تقرری ، کونسل آف کمپلینٹ کے ممبران کی تقرری صدر مملکت اور وفاقی حکومت کرے گی۔

مجوزہ قانون پی ایم ڈی اے میں بھی قائم کی جانے والی اتھارٹی کا تقرر بشمول چیئرمین و ممبران اتھارٹی، چیئرپرسن کونسل آف کمپلینٹ و ممبران کا تقرر بھی وفاقی حکومت کرے گی۔

میڈیا کونسل اور میڈیا ٹربیونل:

مجوزہ قانون میں ایک نیا ادارہ میڈیا ٹربیونل قائم کیا جائے گا جو رائج قانون میں نہیں ہے اسکے چیئرمین کا تقرر صدر مملکت کریں گے اور ممبران کا تقرر وفاقی حکومت کرے گی۔

یہ ٹربیونل ایک طرح سے ہائیکورٹ کے متبادل کے طور پہ رکھے گئے ہیں تاہم یہ مکمل عدالتی نظام کے تحت نہ ہوں گے اور حکومت کا اثرورسوخ زیادہ ہوگا۔

رائج قانون میں اتھارٹی کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ہائیکورٹ کو دیا گیا ہے۔ اب مجوزہ قانون سے یہ حق چھینا جارہا ہے۔

پیمرا ایکٹ 2007 کے تحت اتھارٹی اور شکایت کونسل کو شکایت آنے پہ سماعت کرنے، نوٹس کرنے، تلاشی کی غرض سے وارنٹ جاری کروانے، آلات ضبط کرنے، گرفتار کروانے، فوجداری کارروائی کرنے، کمپنیز ایکٹ کے تحت کمپنی کے خلاف کاروائی کرنے، لائسنس معطل کرنے اور ایک کروڑ روپے جرمانے کی سزا دینے تک کے اختیارات ہیں۔

مجوزہ قانون پی ایم ڈی اے میں یہ ہی تمام اختیارات ہیں، تاہم جرمانے کی رقم ڈھائی سے پانچ کروڑ روپے کر دی گئی ہے۔

رائج قانون کے تحت کم سے کم تین اور زیادہ سے زیادہ چار سال قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔

تاہم مجوزہ قانون پی ایم ڈی اے میں یہ سزا کم سے کم تین اور زیادہ سے زیادہ سزا بڑھا کر پانچ سال کردی گئی ہے۔

میڈیا ورکرز کی تنخواہوں اور اجرتوں کا معاملہ

رائج قانون میں کسی بھی طرح کے ٹی وی چینلز براڈ کاسٹنگ اداروں ڈسٹری بیوشن کمپنیز براڈ کاسٹنگ سٹیشنز سمیت کسی بھی طرح کے کمرشل ادارے جہاں دو یا دو سے زائد درجنوں یا سینکڑوں کی تعداد میں ورکرز کام کرتے ہیں انکے مالی، جسمانی، کام کے اوقات کار اور ماہانہ تنخواہ یا کم سے کم تنخواہ کے قانون سمیت کسی بھی طرح کی ملازمتی مراعات یا تحفظ کا کوئی ایک لفظ یا شق موجود نہیں ہے۔

یہ ہی مجوزہ قانون پی ایم ڈی اے کا جس میں الیکٹرانک میڈیا سے ملازمتی حیثیت سے وابستہ افراد کی ملازمت کے تحفظ سے لیکر مزدوروں کے تحفظ کے قانون کی کوئی شق تک موجود نہیں ہے۔

رائج قانون کے تحت ڈیجیٹل میڈیا اس قانون کے دائرے میں نہیں آتا ہے۔

مجوزہ قانون کا بنیادی مقصد اس ڈیجیٹل میڈیا کو کنٹرول کرنا ہے جس کیے اس مجوزہ قانون میں کئی شقیں رکھی گئی ہیں جس میں

  • یوٹیوب چینل چلانے کے لیے لائسنس لینا
  • لائیسنس کے لیے مقررہ صحافتی تجربہ اور تعلیم
  • کمپنی کی صورت میں کمپنیز ایکٹ کے تحت کمپنی کی رجسٹریشن
  • اخباری ادارہ ہوئے کی صورت میں رجسٹریشن، آڈٹ سرٹیفکیٹ لازم
  • یوٹیوب چینل کے لیے درکار جگہ، آلات اور انٹرنیٹ کی دستیابی اور ملازمین کی تفصیلات
  • ذرائع آمدن اور سیاسی سماجی و مذہبی رجحانات
  • اسی طرح فیس بک پہ وہ لاگ بنانے کی منظوری
  • ضابطہ اخلاق کی پابندی
  • خبریں تجزئیے اور ویڈیوز اس قانون کے زمرے میں آتے ہوں تو انکی منظوری
  • ٹوئٹر پہ خبریں اور تجزیے پوسٹ کرنے کی صورت میں ڈیجیٹل میڈیا ڈائریکٹوریٹ میں کوائف کا اندراج۔

ڈیجیٹل میڈیا وی لاگرز کا مستقبل خطرے میں:

ڈیجیٹل میڈیا پہ چلائی گئی ویڈیو، آڈیو، فوٹو اور تحریر اگر اس قانون اور ضابطہ اخلاق کے منافی پائے گئے تو

  • میڈیا کونسل از خود یا کسی کی شکایت پہ تحقیقات کرسکتی ہیں
  • اس شخص کو طلب کر سکتی ہیں
  • اس سے متعلقہ ریکارڈ دستاویزات اور شواہد طلب کرسکتی ہیں
  • اس شخص کے اس مقام کی تلاشی لے کر اس کا موبائل پی سی یا دیگر آلات قبضہ میں لے سکتی ہیں
  • اس پہ آئندہ ایسے مواد کی اشاعت یا نشر کرنے پہ پابندی لگاسکتی ہے
  • اس کے خلاف جرمانہ یا قید یا دونوں سزا تجویز کر سکتی ہے۔
  • ان اقدامات کیے خلاف اتھارٹی میں نظر ثانی کی درخواست جبکہ اتھارٹی کے فیصلے کے خلاف میڈیا ٹربیونل میں اپیل کی جاسکے گی۔

اس کاروائی اور قانون سازی کا زیادہ نقصان صحافی کو ہوگا، جو آج کل دھڑا دھڑ مشروم گروتھ کی طرح وی لاگ یو ٹیوب چینل اور فیس بک پیجز بنا کر یا ٹوئٹ کے ذریعے وہ تمام معلومات اور سوچ کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔ جس کی اجازت انہیں ان کا ٹی وی چینل نہیں دے رہا ہے۔

الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ افراد کا اصل مسئلہ

یہ ہے الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافیوں کا اصل مسئلہ۔ اب اسے آزادی صحافت کے خلاف سینسر شپ، آزادی صحافت کا گلا گھونٹنے کے مترادف قرار دیا جائے یا اس مشروم گروتھ کو آزادی صحافت قرار دیا جائے؟

اس رائج قانون پیمرا ایکٹ 2007 اور مجوزہ قانون کا الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ عامل صحافیوں کا نہ پہلے کوئی لینا دینا تھا اور نہ آئندہ کوئی لینا دینا ہو گا۔

یہ معاملہ ہے ان پیرا شوٹر اینکرز اور پیرا شوٹر صحافیوں اور ان سیاسی کارکنوں کا جو ڈیجیٹل میڈیا کا بے ہنگم استعمال کر رہے ہیں۔

میری نظر میں اس مجوزہ قانون پی ایم ڈی اے کی بجائے قانون ہتک عزت اور سائبر کرائم کے تحت ہی اسے رہنے دیا جائے۔

اس سے ملک میں صحت مند مقابلے اور احساس زمہ داری پروان چڑھے گا۔

ان شاءاللہ اس سلسلے کی چوتھی قسط میں تیسرے قانون پریس کونسل آرڈینس 2002 کا تقابلی جائزہ پیش کیا جائے گا۔

ادارتی نوٹ

‘رائٹ پاکستان” پر تمام تحریریں نیک نیتی سے شایع کی جاتی ہیں۔ ادارہ کا مصنف کی رائے یا تحریر کے متن سے متفق ہونا ضروری نہیں (رائٹ پاکستان)

Leave A Reply

Your email address will not be published.