
پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (PMDA) بنیادی طور پر کیا ہے؟ میڈیا انڈسٹری بالخصوص صحافی برادری کیلئے اس کے فوائد یا نقصانات کیا ہوسکتے ہیں؟
معروف صحافی اور قانون دان سید اشتیاق مصطفی بخاری ایڈووکیٹ کی یہ چشم کشا تحریر پی ایم ڈی اے کے بارے میں کئی حقائق سامنے لاتی ہے۔ یہ اس سلسلے کی دوسری قسط ہے۔ آئیے پڑھتے ہیں (ادارہ)۔
پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (PMDA) قسط نمبر 2
گزشتہ قسط اس مجوزہ قانون کا تعارف پیش کیا تھا۔ آج اسکی دوسری قسط موشن پکچر آرڈیننس 1979 کے ساتھ تقابلی جائزہ پر مبنی ہے۔
یہ مجوزہ قانون جسے وفاقی حکومت نے بحث کے لیے قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات میں پیش کیا ہے۔
میری کوشش ہے کہ اس فورم کے ذریعے تمام متعلقین کو بنیادی معلومات فراہم کر سکوں تا کہ وہ اپنے حقوق سے آگاہی کے ساتھ اسکا تحفظ کرسکیں۔
جیسا کہ میں نے اپنی سلسلہ وار تحریر کی پہلی قسط میں کہا تھا کہ ان پانچ قوانین جنھیں حکومت ختم کرنے جا رہی ہے۔
ان میں سے ایک قانون ہے اس قانون کی جزیات اور تقابل سے قبل موشن پکچر کی اختصار سے تاریخ بیان کرنا ضروری ہے تاکہ قانون کے ضمن میں ذہن واضح ہوسکے۔
میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور سینماٹو گرافی ایکٹ 1918:
موشن پکچر یعنی متحرک تصاویر کا آغاز انیسویں صدی میں 1830 کے بعد ہوا، جس سے دنیا میں انقلاب کی راہ ہموار ہونا شروع ہوئی۔
حاکم اور محکوم دونوں اقوام نے اس ذریعہ اطلاعات کو اپنے اپنے حق میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔
مگر ایک صدی بعد یعنی بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں تاج برطانیہ نے اس سے خوف محسوس کرنا شروع کیا اور اس ذریعہ اطلاعات سے کئی جگہوں پہ معمولی اور کہیں سخت مزاحمتی تحاریک نے جنم لیا۔
یوں پہلی دفعہ اس ذریعہ اطلاعات کو پابند قانون بنایا گیا اور 1918مین پہلا قانون سینماٹو گرافی ایکٹ 1918 نافذ کیا گیا۔
اس قانون کے تحت کوئی بھی فلم متعلقہ اتھارٹی سے منظوری لیے بغیر سینما گھر میں نہیں چلائی جاسکتی تھی۔
ایسا کرنے پی سینما سیل آلات ضبط جرمانہ اور محسوس کرنے پہ قید کی سزا بھی دی جا سکتی تھی۔
اس قانون کے نفاذ کی بنیادی وجہ ایسی فلموں کی تیاری روکنی تھی جس سے آزادی کا جذبہ ابھرتا ہو۔
صرف ایسی فلموں کی نمائش کی اجازت تھی جو تاج برطانیہ کی وفاداری اور تفریح کے مقصد کے لیے بنائی گئی ہو۔
قیام پاکستان کے وقت اور اسکے بعد فوجی حکومت آنے تک یعنی 1963 تک یہ ہی قانون 1953 میں چند ترامیم کے ساتھ رائج رہا اور یہ ہی دور پاکستان فلم انڈسٹری کا عروج کی طرف گامزن دور تھا۔
سینسر شپ آف فلم ایکٹ 1963:
جنرل ایوب خان کی حکومت نے 1962 کے آئین کے بعد اس قانون کو منسوخ کر کے اسکی جگہ ایک دوسرا قانون سینسر شپ آف فلم ایکٹ 1963 کا نافذ کیا۔
ان کی سوچ میں یہ تھا ہم ایسی فلمیں نہ بنائیں جس میں انڈیا پاکستان کی منظر کشی ہو بلکہ انڈیا مخالف فلم بنانے کی بنیاد اس قانون کے بعد ہی پڑی۔
وجہ یہ تھی کہ صدر ایوب کا خیال تھا کہ قوم کو بھارت کے خلاف جتنا بھرا جائے گا اتنا انکی حکومت مضبوط رہے گی۔
اسی وجہ سے بنائی جانے والی فلموں کو اپنی سوچ میں ڈھالنے کی غرض سے اس قانون کے تحت مرکزی سینسر شپ بورڈ قائم ہوا۔
یہ سنسر بورڈ فلم کا جائزہ لینے کے بعد اس میں کانٹ چھانٹ کی ہدایات دیتا تھا اور اس کانٹ چھانٹ کے بعد فلم سینسر شپ سرٹیفکیٹ کا اجراء ہوتا تھا۔
یوں وہ فلم نمائش کے لیے سینما گھروں کو فراہم کی جاتی تھی۔
موشن پکچر آرڈیننس
بات یہاں ہی نہیں رکی جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے یہ محسوس کیا کہ فلم کے ذریعے قوم میں بے حیائی پھیلائی جا رہی ہے۔
انہوں نے بھی محسوس کیا کہ مروجہ قانون اس (بے حیائی) کی روک تھام کے لیے موزوں نہیں ہے۔ جس پہ بذریعہ آرڈیننس 1979 میں موشن پکچر آرڈیننس کے تحت نیا قانون نافذ کیا گیا۔
سینسر بورڈ کو خصوصی ہدایات جاری کی گئیں اور یوں فلم سینسر بورڈ میں جا کر آدھی واپس آنے لگی یوں پاکستان میں فلمی صنعت تباہی کا شکار ہونے لگی اور آج جو حال ہے سب کے سامنے ہے۔
اگر مختصراً پاکستان کی فلمی صنعت کا جائزہ لے لیا جائے تو پاکستان بننے سے قبل ہی لاہور میں فلم سٹوڈیو قائم ہو چکا تھا۔
1948 میں پاکستان میں فلمائی گئی پہلی فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی اور یوں فلم انڈسٹری کے عروج کا دور شروع ہوا۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پاکستان دنیا کا فلم بنانے والے ملکوں کی فہرست میں چوتھے نمبر پر تھا۔
اس دوران شاندار فلمیں بنیں اور ملک میں ڈیڑھ ہزار سے زائد سینما گھر وجود میں آئے۔
فلم انڈسٹری کا زوال:
ان بیس پچیس سالوں میں یہ سب سے بڑے بزنس کے طور پہ سامنے آیا تاہم 1979 کے قانون کے نفاذ کے بعد تیزی سے یہ کاروبار تباہی کا شکار ہوا۔
یوں آج پورے ملک میں صرف 160 سینما گھر ہیں اور سالانہ تمام زبانوں یعنی اردو، پنجابی، پشتو اور سندھی میں درجن بھر فلمیں نہیں بنتی ہیں۔
اس وقت تک کے دستیاب ریکارڈ کے مطابق دس ہزار سے زائد اردو زبان میں، آٹھ ہزار سے زائد پنجابی زبان میں فلمیں بنائی گئی تھی۔ اسی طرح چھ ہزار کے لگ بھگ پشتو زبان میں بنائی گئیں۔
(پنجابی زبان میں ستر فیصد اور پشتو زبان میں اسی فیصد سے زائد فلمیں جنرل ضیاء الحق کے دور میں بنائی گئی تھیں، ان میں گنڈاسا اور انجمن کی شہرت پورے ملک میں گونجتی تھی)۔
دو ہزار کے لگ بھگ سندھی زبان میں فلمیں بنائی گئی ہیں۔
اب چونکہ ملک میں فلم انڈسٹری مکمل تباہ ہو چکی ہے۔ اس بنیاد پہ موشن پکچر آرڈیننس 1979 نافذ رہے یا ختم کر دیا جائے اس سے نہ ہی حکومت اور نہ ہی فلم سازوں کو خاص نفع یا نقصان ہے۔
اب موشن پکچر یعنی متحرک تصاویر کا دور ختم ہوگیا اور اسکی جگہ جدید کیمروں اور آلات نے لے لی ہے۔
ابھی مجوزہ قانون میں بھی موشن پکچر اور سینما گھر کا تذکرہ نہیں ملتا ہے۔
ماسوائے اس کے کہ جو بھی فلم بنانے گا وہ مجوزہ اتھارٹی سے اسکی منظوری لے گا اس میں نہ ہی موشن پکچر اور نہ ہی ڈیجیٹل فلم کی تخصیص کی گئی ہے۔
میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور سینسر بورڈ شپ:
موشن پکچر آرڈیننس 1979 کے تحت مرکزی سینسر شپ بورڈ وزارت اطلاعات و نشریات کے ماتحت کام کررہا ہے۔
مجوزہ قانون کے تحت بھی یہ وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت قائم اتھارٹی کے ماتحت کام کرے گا۔
موشن پکچر آرڈیننس 1979 میں بھی فلم بغیر منظوری نمائش کے لیے پیش نہیں کی جاسکتی تھی۔ مجوزہ قانون کے تحت بھی این او سی لینا لازم ہے۔
موشن پکچر آرڈیننس 1979 کے تحت فلم کی منظوری اور جائزے کے لیے مرکزی سینسر شپ بورڈ فیصلہ کرتا ہے، مجوزہ قانون میں اتھارٹی اس مقصد کو سرانجام دے گی۔
موشن پکچر آرڈیننس 1979 کے تحت مرکزی سینسر شپ بورڈ گریڈ 20 کے وزارت اطلاعات و نشریات کے سرکاری افسر کے ماتحت ہے مجوزہ قانون کے تحت اب یہ کام وزارت اطلاعات و نشریات کے گریڈ 21یا 22 کے سرکاری افسر نے سرانجام دینا ہے۔
سزائیں اور جرمانے
موشن پکچر آرڈیننس 1979 کے تحت غیر منظور شدہ فلم نمائش کے لیے پیش کرنے پہ فلم پہ پابندی سینما گھر سیل فلم ساز فلم ڈسٹری بیوٹر اور سینما گھر مالک کو ایک لاکھ روپے کی سزا ہوسکتی ہے۔
مزید خلاف ورزی پہ دس ہزار روپے روزانہ کی بنیاد پہ اضافی جرمانہ اور تین سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
مجوزہ قانون میں یہ ہی سزا اضافے کے ساتھ رکھی گئی ہے، جرمانہ ڈھائی کروڑ روپے مزید خلاف ورزی پہ ڈھائی کروڑ مزید جرمانہ جبکہ سزائے قید تین سے پانچ سال تک دی جا سکے گی۔
موشن پکچر آرڈیننس 1979 کے تحت چیئرمین مرکزی فلم سینسر شپ بورڈ کی تعیناتی وزیراعظم کرتا ہے۔
دیگر امور وزیر اطلاعات و نشریات دیکھتا ہے، مجوزہ قانون کے تحت بھی اتھارٹی کے چیئرمین کی تعیناتی وزیراعظم کرے گا اور دیگر ممبران کی تعیناتی وزیر اطلاعات و نشریات بطور وفاقی حکومت کرے گا۔
لالی ووڈ کے تابوت میں آخری کیل
الغرض موشن پکچر آرڈیننس 1979 جو ملک میں فلم انڈسٹری جسے لالی ووڈ کہا جاتا ہے، تباہی کے بعد اپنی افادیت کھو چکا ہے۔
اسے اس مجوزہ قانون میں بھی پذیرائی یا جگہ نہیں مل سکی۔ تاہم اس نئے قانُون سے اس صنعت کو کوئی دائرہ نہیں ہے، جس سے اس صنعت کو دوبارہ اپنے پاؤں پہ کھڑا کیا جاسکے۔
ایسا کچھ نہیں کیا گیا، جس سے فلم انڈسٹری کا سنہری دور واپس آسکے۔ اس غرض سے اس مجوزہ قانون (پاکستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی) میں ایک لفظ بھی درج نہیں ہے۔
اس مجوزہ قانون پی ایم ڈی اے سے ختم ہونے والے دوسرے قانون پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (PEMRA) کے بارے میں تقابلی جائزہ ان شاءاللہ اپنی تیسری قسط میں پیش کروں گا۔
ادارتی نوٹ
‘رائٹ پاکستان” پر تمام تحریریں نیک نیتی سے شایع کی جاتی ہیں۔ ادارہ کا مصنف کی رائے یا تحریر کے متن سے متفق ہونا ضروری نہیں (رائٹ پاکستان)