Ultimate magazine theme for WordPress.

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (PMDA) – مجوزہ قانون کیا ہے؟

تحریر: سید اشتیاق مصطفی بخاری

724
سید اشتیاق بخاری

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (PMDA) بنیادی طور پر کیا ہے؟ میڈیا انڈسٹری بالخصوص صحافی برادری کیلئے اس کے فوائد یا نقصانات کیا ہوسکتے ہیں؟

معروف صحافی اور قانون دان سید اشتیاق مصطفی بخاری ایڈووکیٹ کی یہ چشم کشا تحریر پی ایم ڈی اے کے بارے میں کئی حقائق سامنے لاتی ہے۔ آئیے پڑھتے ہیں (ادارہ)۔

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی حقیقت، فوائد اور نقصانات پر قسط وار سلسلہ شروع کر رہا ہوں۔

آج اس سلسلے کی پہلی قسط تعارف پہ مبنی ہے کہ یہ قانون کیا ہے اور اس کے ذریعے کن قوانین کو ختم کیا جارہا ہے؟

اور یہ کہ اس اتھارٹی سے کس طبقہ کو براہ راست فوائد اور نقصان ہوگا۔ اس کے علاوہ یہاں اس کے تمام قانونی پہلوؤں کا جائزہ بھی پیش کیا جائے گا۔

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (PMDA)

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی

اس نئے متعارف کروائے جانے والے قانون کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت پانچ قوانین ختم کر کے اس نئے قانُون کو رائج کرنا چاہتی ہے۔

مقصد بظاہر یہ ہے کہ اس وقت مروجہ تین طرح کے ذرائع اطلاعات کو ایک ہی چھت تلے اکھٹا کرکے ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا جاسکے۔

پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے، جہاں بہت تیزی سے انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں آٹھ کروڑ سے زائد افراد انٹرنیٹ کا استعمال کررہے ہیں۔

ان میں ساڑھے سات کروڑ افراد موبائل فون ڈیٹا کے ذریعے اسکا استعمال کررہے ہیں اور سالانہ تین سو ارب کا کاروبار ہو رہا ہے۔

اس وقت سب سے قدیم ذریعہ اطلاعات اخبار ہے جو پاکستان میں شدید زبوں حالی کا شکار ہے۔

دوسرا ذریعہ ریڈیو اور ٹی وی کا ہے جو پاکستان میں سابق فوجی حکومت کے دور میں مشروم کی طرح آگیا۔

پھر کئی ادارے اپنی موت آپ مرتے چلے گئے اور یہ شعبہ بھی خاصا زبوں حالی کا شکار ہے۔

سینما کا ذریعہ تفریح پہلے ہی دم توڑ چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب ملک میں 1600 سینما گھر ہوا کرتے تھے جنکی تعداد شائد اب دو تین سو بھی بمشکل ہوگی۔

اس وقت سب سے اہم تیز ترین اور سستا ترین ذریعہ اطلاعات انٹرنیٹ سے جڑے ذرائع ہیں۔ ان میں یو ٹیوب، فیس بک، ٹوئیٹر خاصے موثر پلیٹ فارم ہیں۔

ان ذرائع کی مدد سے ہر وہ شخص جس کہ پاس ایک عدد اینڈرائیڈ موبائل فون ہے، وہ ایک دانشور، صحافی، محقق، تجزیہ نگار اور نہ جانے کس کس چیز کا ماہر بن گیا ہے۔

سوشل میڈیا کا خوف؟

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی

حکومت وقت اور طاقتور مافیاز ان سماجی ذرائع اطلاعات سے خوف زدہ ہیں۔ حکمران اسے کسی طرح قابو کرنے کی اپنی تئیں کوشش میں مصروف ہیں۔

بڑے اخبارات اور ٹی وی چینل کے مالکان اپنے ورکرز سے قانونی جنگ میں شکست کھانے کے بعد اس نئے طرز اطلاعات کے ہاتھوں ذلت سے بچنے کے لیے حکومت کے ہم رکاب ہیں۔

بظاہر وہ ایسا انداز اپنائے ہوئے ہیں جس سے یہ محسوس ہو کہ وہ اس قانون پی ایم ڈی اے کے خلاف ہیں، مگر اس قانون کا جائزہ لیں تو یہ سراسر انکے مفادات کے تحفظ کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔

فرق صرف یہ ہے کہ وہ حکومت پہ دباؤ ڈال کر اس نئے طرز اطلاعات جسے ڈیجیٹل میڈیا کہا جاتا ہے میں سرکاری اشتہارات کا حصہ کم کروانا چاہتے ہیں تاکہ ٹی وی اور اخبارات کو اسی طرح اشتہارات ملتے رہیں۔

گزشتہ 5 برسوں کے دوران صرف چار اخباری گروپس کو لگ بھگ پانچ ارب روپے کے اشتہارات دیے گئے ہیں۔

ان چاروں اخبارات کے ٹی وی چینلز کو دیے گئے اشتہارات اس رقم سے دوگنا کے لگ بھگ ہیں۔

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی:

اس مذکورہ قانون یعنی پی ایم ڈی اے کے تحت

  • کوئی بھی شخص یو ٹیوب، فیس بک اور ٹوئیٹر پہ بطور خبر نیوز پروگرام بذریعہ آڈیو ویڈیو اور ٹیکسٹ میسج شائع یا نشر نہیں کر سکے گا تاوقتیکہ وہ اس حوالے سے باضابطہ اجازت نامہ نہ لے لے
  • اگر کوئی شخص فیس بک، یوٹیوب اور ٹوئیٹر سمیت کسی بھی سوشل میڈیا پہ کوئی خبر تبصرہ پروگرام براہ راست یا ریکارڈ شائع یا نشر کرے گا
  • تو کسی بھی شخص کی شکایت یا از خود نوٹس کے ذریعے میڈیا کمپلینٹ کونسل اس شخص کو طلب کرسکے گی۔
  • میڈیا کمپلینٹ کونسل اس کا وارنٹ جاری کرسکے گی، اس پہ پابندی لگاسکتی ہے
  • میڈیا کمپلینٹ کونسل اس کے اس مقام جہاں سے اس نے اس خبر کو نشر یا شائع کیا ہو گا تلاشی لے سکتی ہے۔
  • میڈیا کمپلینٹ کونسل متعلقہ الیکٹرانک ڈیوائسز بھی قبضہ میں لے سکتی ہے۔
  • یہ ہی سب کچھ کمپلینٹ کونسل لائسنس یافتہ شخص یا ادارے کے خلاف بھی کر سکتی ہے۔
  • اسی طرح کی کاروائی اخبار اور ٹی وی چینل کے خلاف بھی کرنے کا اختیار اس کونسل کو ہوگا۔

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ضابطہ اخلاق

اس قانون کے تحت حکومت ایک ضابطہ اخلاق فراہم کرے گی جس پہ عمل کرنے کے اخبارات ٹی وی چینلز اور ڈیجیٹل میڈیا کے مالکان و افراد پابند ہوں گے۔

  1. حکومت طے کرے گی کہ کیا معاملہ حساس نوعیت کا ہے؟
  2. کونسا معاملہ ملکی سلامتی اور دفاع سے منسلک ہے؟
  3. کونسا معاملہ معاشرے کے لیے سود مند نہیں ہے؟
  4. اس ضابطے کی خلاف ورزی پہ سزا اور جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

یوں ملک میں سوشل میڈیا مکمل قابو میں ہوگا۔ ابھی وی لاگ والوں کو دھمکایا جا رہا ہے۔ ایف آئی اے سے نوٹس بھیجے جاتے ہیں اب اس قانون کے تحت ڈائریکٹ سزا۔

میڈیا کے 3 ڈائریکٹوریٹس کی تشکیل

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی
پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی لانے پر عمران خان حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے

پی ڈی ایم اے کے تحت حکومت تین ڈائریکٹوریٹ بنائے گی جس میں ایک اخبارات دوسرا الیکٹرانک میڈیا اور تیسرا ڈیجیٹل میڈیا کا ہوگا۔

ان تینوں ڈائریکٹوریٹ کو ایک اتھارٹی چلائے گی۔ اس اتھارٹی کا چیئرمین وزارت اطلاعات و نشریات سے تعلق رکھنے والا انفارمیشن گروپ کا گریڈ 21 -22 کا بیوروکریٹ ہوگا۔

جس کے ہمراہ 12 ممبران بھی شامل ہوں گے، جن کی سلیکشن حکومت خود کرے گی۔

اس اتھارٹی کے ماتحت میڈیا کمپلینٹ کونسلز ہوں گی۔ جن کا سربراہ اور پانچ ممبران اس ضلع کے معززین ہوں گے، جہاں یہ کونسل قائم کی جائے گی۔

کونسل کی معاونت کے لیے ایک ایڈوائزری کونسل بھی ہوگی اس میں بھی حکومت معززین یا سرکاری ملازمین کو تعینات کرے گی۔

میڈیا ٹربیونل اور میڈیا کمپلینٹ کونسل

اس کے بعد میڈیا ٹربیونل قائم کیا جائے گا۔ جس کا سربراہ ہائیکورٹ کا جج یا ہائیکورٹ کا جج بننے کا اہل وکیل یا ریٹائر جج ہائیکورٹ کو بنایا جائے گا۔

جس کے ہمراہ 9 ممبران ہوں گے، جن کا تعلق اپنے شعبے کے ماہرین اور سرکاری ملازمین میں سے ہوگا۔

میڈیا کمپلینٹ کونسل سب سے طاقتور فورم ہے۔ جسے سول کورٹ کے اختیارات حاصل ہوں گے۔

  • میڈیا کمپلینٹ کونسل ہی ہر طرح کی سزا اتھارٹی کو کسی کے بھی خلاف منظور کر کے بھیجے گی۔
  • کم سے کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ پانچ سال سزائے قید ہوگی۔
  • کم سے کم ڈھائی کروڑ اور زیادہ سے زیادہ پانچ کروڑ روپے جرمانے کی سزا ہوگی۔
  • تاہم اتھارٹی قید اور جرمانے دونوں سزائیں اکھٹی بھی دے سکتی ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ میڈیا ٹربیونل تینوں طرح کے ذرائع اطلاعات یعنی اخبارات، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے ملازمین کے تنخواہوں پہ عملدرآمد سمیت میڈیا ورکرز کے ملامت کے معاملات کا بھی جائزہ لے سکے گی۔

تاہم اس پی ایم ڈی اے کے قانون کے ذریعے ویجز ایکٹ کو ختم نہیں کیا گیا۔

اس ایکٹ کے ہوتے ہوئے میڈیا ٹربیونل کیسے اس تنخواہوں کے معاملے کو دیکھنے کا اختیار رکھتا ہے؟ اس بارے میں پورے پی ایم ڈی اے کے قانون میں ایک لفظ بھی موجود نہیں ہے۔

صحافیوں کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟

ملک بھر کی صحافتی تنظیموں کو میدان عمل میں آنا ہو گا۔

ورنہ دس سال کی جدو جہد کے بعد حاصل کیے گئے جرنلسٹ ملازمت شرائط و ضوابط آرڈیننس 1960 کے اجراء پھر اخباری کارکنان ملازمت شرائط وضوابط ایکٹ 1973 کی منظوری پھر اخباری کارکنان عملدرآمد ٹربیونل کا 1975 میں قیام سب ختم ہو جائے گا۔

نہ کوئی ویج بورڈ بنے گا اور نہ ہی تنخواہ میں اضافہ ہو گا۔

اس وقت جن سینکڑوں ورکرز کے حق میں آئی ٹی این ای سے کروڑوں روپے کی ڈگریاں ہوچکی ہیں اور انکی وصولی کے کیسز چل رہے ہیں نہ ان کیسز کا قانون میں ذکر ہے اور نہ ہی کوئی تحفظ حاصل ہے۔

آئی ٹی این ای کے پاس موجود گاڑیوں اور دیگر اثاثہ جات کو اس قانون کے منظور ہوتے ہی پی ایم ڈی اے کے حوالے کرنے اور جو ملازمین پی ایم ڈی اے کے لیے سلیکٹ نہیں ہوں گئے انھیں سر پلس پول میں ڈالنے کا روڈ میپ تو دیا گیا ہے۔

لیکن ان اخباری کارکنان کو جیتی ہوئی رقم کی فراہمی کا نہ ذکر ہے نہ تحفظ۔ اس طرح حکومت اخباری مالکان کو ایک بہت بڑا ریلیف فراہم کرنے جا رہی ہے۔

میڈیا کیا کرے؟

صحافی لیڈران اپنے پاؤ گوشت کے لئے بھینس ذبح نہ کریں۔

خدا راہ! وہ صحافی جو اس قانون کے حق میں ہیں ہوش کے ناخن لیں اپنے ڈیجیٹل میڈیا کے اشتہارات اور سرکاری مدد اور مال کماؤ مہم کی بجائے ہزاروں اخبارات کے غریب ورکرز کا خیال کریں۔

انشاءاللہ اس تعارفی قسط کے بعد دوسری قسط میں پاکستان موشن پکچر آرڈیننس 1979 جسے اس قانون کے تحت ختم کیا جارہا ہے، کہ ساتھ تقابلی جائزہ پیش کروں گا۔

اس کے بعد آئندہ اقساط میں دیگر چار ختم ہونے والے قوانین کا بھی اس قانون کے تحت تقابلی جائزہ پیش کروں گا۔

راقم سید اشتیاق مصطفٰی بخاری ایڈوکیٹ ہائیکورٹ سابق سیکرٹری APNEC راولپنڈی اسلام آباد اور عامل صحافی رہ چکے ہیں۔

ادارتی نوٹ

‘رائٹ پاکستان” پر تمام تحریریں نیک نیتی سے شایع کی جاتی ہیں۔ ادارہ کا مصنف کی رائے یا تحریر کے متن سے متفق ہونا ضروری نہیں (رائٹ پاکستان)

Leave A Reply

Your email address will not be published.