اسلام آباد (رائیٹ پاکستان رپورٹ) پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت، سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق دائر درخواستوں پر تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے ۔۔۔۔ یہ فیصلہ 224 صفحات پر مشتمل ہے، جسے عدالت عظمیٰ کے فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے ۔۔۔۔ اس فیصلے میں صدارتی ریفرنس نمبر ایک 2019 کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا گیا ہے ۔۔۔۔ فیصلے میں لکھا گیا ہے جسٹس فائز عیسی جنہیں عدالتی کمیونٹی میں انتہائی معزز سمجھا جاتا ہے ۔۔۔۔ ان پر الزام لگایا گیا ہے ۔۔۔۔ اس داغ کو دھونے کا اکلوتا طریقہ یہ ہے کہ جسٹس فائز کی اہلیہ ایف بی آر میں اپنی جائیداد سے متعلق تمام دستاویزات جمع کرادیں ۔۔۔۔۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ
اس تفصیلی فیصلے میں بینچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ لکھا ہے ۔۔۔۔۔ جسٹس آفریدی نے ناصرف اس ریفرنس کو غیر آئینی قرار دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ صدر مملکت اس ریفرنس میں اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرنے میں ناکام رہے ۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا تمام عمل غیر آئینی اور غیر قانونی قرار پایا ہے ۔۔۔۔ جسٹس یحییٰ نے نے اپنے اختلافی نوٹ میں وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم اور مشیر داخلہ شہزاد اکبر مرزا سمیت دیگر حکام کو جرم کا مرتکب قرار دیا ہے ۔۔۔۔۔ اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اہلیہ سرینا فائز کے ٹیکس ریٹرنز کی خفیہ معلومات افشا کرنا ایک جرم ہے ۔۔۔۔۔ وفاقی وزیرقانون فروغ نسیم اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے چیئرمین شہزاد اکبر مرزا کا یہ اقدام قابل تعزیر جرم کے زمرے میں آتا ہے ۔۔۔۔۔ عدالت نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایف بی آر کے چیئرمین اور انکم ٹیکس حکام بھی معلومات افشا کرنے میں شریک جرم ہیں ۔۔۔۔۔۔ عدالت نے وفاقی وزیر قانون بئیرسٹر فروغ نسیم، ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر مرزا اور ایف بی آر کے چیئرمین کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی کہا ہے ۔۔۔۔۔۔ اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی اتنی کمزور نہیں کہ اس طرح کی شکایات سے اسے نقصان پہنچ سکے ۔۔۔۔۔۔
جسٹس فیصل عرب کا اختلافی نوٹ
فل کورٹ کے رکن جسٹس فیصل عرب نے اختلافی نوٹ تحریر کیا، جس میں لکھا گیا ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس میں نظرثانی درخواستوں کو بدنیتی کے شواہد کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔۔۔۔ آئین میں ایسی کوئی قانونی شق موجود نہیں، جس میں ججز کیخلاف ریفرنس کو خفیہ رکھنے کا کہا گیا ہو ۔۔۔۔۔ جسٹس فائز عیسی کیخلاف ریفرنس فیض آباد دھرنا کیس نہیں بلکہ لندن جائیدادوں کی بنیاد پر بنا، اس لیے ریفرنس بدنیتی پر مبنی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔۔۔۔۔
ریفرنس کی تاریخ
اس سے قبل رواں برس انیس جون کو عدالت عظمیٰ نے مقدمے کا مختصر فیصلہ سنایا تھا ۔۔۔۔۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر فریقین کی درخواستوں کو منظور کرلیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ مختصر فیصلے میں عدالت نے جسٹس فائز کیخلاف ریفرنس نمبر 2019 ایک کو غیر قانونی قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا تھا ۔۔۔۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے بھیجا گیا اظہار وجوہ کا (شوکاز نوٹس) بھی کالعدم قرار دے دیا تھا ۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
عدالت عظمی کے تفصیلی فیصلے بعد سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر اس پر صارفین نے اپنا ردعمل بھی دیا ہے ۔۔۔۔۔
صحافی حامد میر نے اپنا گزشتہ سال کا کالم ٹوئٹر پر شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "پچھلے سال جب عمران خان کی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کیا تو اس ناچیز نے بار بار لکھا یہ مت کریں یہ بہت بڑی غلطی ہے آپکو رسوائیوں کے سوا کچھ نہ ملے گا لیکن کسی نہ سنی اب بھگتو رسوائیاں”
https://twitter.com/HamidMirPAK/status/1319642816134393857
صحافی مرتضی سولنگی نے سوال اٹھایا ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالت نے قرار دیا ہے کہ صدر مملکت اپنے صوابدیدی اختیار کے درست استعمال میں ناکام رہے ، جناب صدر براہ مہربانی استعفا دے کر گھر چلے جائیں، شکریہ
https://twitter.com/murtazasolangi/status/1319632052560474112
دیگر صارفین نے بھی سوشل میڈیا پر اس خبر پر اپنا بھرپور ردعمل دیا ہے۔