سیرت نبوی ﷺ کا ایک حسین پہلو انسانی کردار کا بالکل درست تعین اس کی زبان سے ہوتا ہے ۔۔۔۔ اور زبان کا سب سے بہترین استعمال سچ بولنا ہے ۔۔۔۔ جو انسان بھی ہمیشہ سچ بولتا ہے، وہ ہمیشہ کامیاب اور فتح مند رہتا ہے ۔۔۔۔ صدق اور سچ کی صفات میں وقتی مشکلات آتی ہیں لیکن یہ سچ انسان کو ململ عافیت اور مشکلات سے نجات کے راستے پر ڈال دیتا ہے ۔۔۔۔ جھوٹے شخص کو عارضی طور پر اور کچھ وقتی فائدے تو حاصل ہوجاتے ہیں لیکن یہ جھوٹ اُسے بالآخر تباہی کی جانب لے جاتا ہے ۔۔۔۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ "سچ نجات کا ذریعہ ہے جبکہ جھوٹ ہلاکت کا باعث بنتا ہے” ۔۔۔۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آل وسلم کا حسن و جمال
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آل وسلم ہر طور اور ہر لحاظ سے ایک کامل انسان تھےسیرت نبوی ﷺ کی حیات مبارکہ حسن و جمال اور رشد و ہدایت کا حسین مرقع تھی۔ جھوٹ بولنا تو کجا آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم سے عمر بھر کو جھوٹ سرزد بھی نہیں ہوا ۔۔۔۔ حالانکہ جس معاشرے میں آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم نے آنکھ کھولی، اس کی بنیاد ہی جھوٹ، غلط بیانی اور دھوکہ دہی پر تھی ۔۔۔۔ جھوٹ کو اگرچہ عیب جانا جاتا تھا لیکن اس وقت عرب معاشرے میں جھوٹ بولنا اتنا عام ہوچکا تھا کہ اسے برائی ماننے کے باوجود جھوٹ کو ہوشیاری اور پرکاری کے ساتھ انسان کی ذہانت اور فطانت بھی سمجھا جاتا تھا ۔۔۔۔۔ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ و آل وسلم نے ایسے معاشرے میں آنکھ کھولنے کے باوجود اپنا دامن اس آلودگی سے ہمیشہ پاک اور صاف رکھا ۔۔۔۔ بچپن اور لڑکپن میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی اس صفت کا چہار دانگ میں چرچا تھا ۔۔۔۔ عرب معاشرے کا کوئی فرد نہ جو اس حقیقت سے بے خبر رہا ، کسی نے کبھی اس کا انکار کیا اور نہ ہی نفی کرسکا ۔۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم عنفوان شباب میں ہی صادق وا مین کے القاب سے معروف ہوچکے تھے ۔۔۔۔۔
نبوت کا اعلان
آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی اس صفت کی بدولت بدترین مخالفتوں کے ادوار میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کا ستارہ چمکتا رہا ۔۔۔۔۔ چالیس سال کی عمر تک آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم پوری قوم کے درمیان بلا استثناء ، سب سے معزز و محترم شخصیت تھے ۔۔۔۔۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم نے چالیس سال کی عمر میں جب اللہ کی طرف سے حکم ملنے پر اپنی نبوت کا اعلان کیا تو حالات یکسر بدل گئے ۔۔۔۔ قریش مکہ آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے ۔۔۔۔ ہر قسم کا حربہ آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے خلاف استعمال کیا جانے لگا ۔۔۔۔ کفار مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے دشمن بن گئے لیکن اس سارے عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی صداقت کا انکار کوئی نہ کرسکا۔ کوہ صفا کے مشہور خطبے میں آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم نے اپنا اصلی خطاب شروع کرنے سے پہلے لوگوں سے گواہی لی کیا تم لوگوں نے مجھے سچا پایا ہے یا جھوٹا تو مجمع بہ یک زبان پکار اٹھا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کو ہمیشہ راست گو پایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس گواہی کے باوجود اسی مجلس میں ابو لہب اور دیگر لوگوں نے بعد میں دعوتِ حق سے انکار کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کو جھٹلایا اور نت نئے الزامات تراشے لیکن داعیِ حقؐ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے بارے میں اہل مکہ کی اس پہلی نے نبہ کریم صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کردی ۔۔۔۔۔۔ جس کے بعد یہ گواہی ہمیشہ کیلئے لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہوکر رہ گئی ۔۔۔۔۔
ابوجہل اور قریش مکہ
ابوجہل قریش مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کا سب سے بڑا مخالف تھا ۔۔۔۔۔ لیکن یہ سب سے بڑا مخالف ابوجہل بھی آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کو جھوٹا کہنے کی جسارت نہ کرسکا ۔۔۔۔ اسی طرح ایک بار ایک معروف عرب اخنس بن شریق نے ابو جہل سے پوچھا کہ تم جو (صلی اللہ علیہ و آل وسلم) کو جھٹلاتے ہوئے تو کیا واقعی اسے جھوٹا بھی سمجھتے ہو؟ اس پر جواب میں ابوجہل بولا بخدا! میں نہیں سمجھتا کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آل وسلم) جھوٹ بولتا ہے، لیکن تمھیں پتہ ہونا چاہئے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آل وسلم ) بنو ہاشم میں سے ہے ۔۔۔۔ جبکہ ہم بنو مخزوم میں سے ہیں ۔۔۔۔ بنو ہاشم اور بنو مخزوم ہمیشہ ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں ۔۔۔۔ مہمان نوازی کرنی ہو یا جنگ کا میدان سجانا ہو ۔۔۔۔ جود و سخا کے دریا بہانے ہوں یا شعر و خطابت کی محفلیں جمانا ہوں ۔۔۔۔ بنو مخزوم نے ہر میدان میں بنو ہاشم کا مقابلہ کیا ہے ۔۔۔۔ تو پھر اب اس ( محمد صلی اللہ علیہ و آل وسلم) نے نبوت کا دعویٰ کردیا ہے، تو ہم اسے (محمد صلی اللہ علیہ و آل وسلم کو) نبی مان کر اپنی برتری سے کیا دست بردار ہوجائیں ؟ بخدا، ایسا نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس وقعے کی جانب اشارہ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کو حوصلہ دیا ۔۔۔۔ قران مجید میں ارشاد ہے کہ
"اے نبی (صلی اللہ علیہ و آل وسلم)! یہ لوگ جو باتیں بناتے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ آپ کو ان سے رنج پہنچتا ہے، لیکن یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں جھٹلاتے، بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کررہے ہیں”
آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی صداقت و امانت کی گواہی
آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے حق میں صداقت و امانت کی سچا اور راست باز ہونے کی گواہی دینے والا صرف ابوجہل ہی نہ تھا بلکہ ساری قوم آپ کی ان صفات کی گواہ تھی ۔۔۔۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اپنی امت کو دی جانے والی ہدایات میں راست بازی سب سے واضح اور نمایاں ہے ۔۔۔۔ خود آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم بھی چونکہ راست بازی کی بہترین مثال تھے ۔۔۔۔۔ اس لئے اللہ رب العالمین نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و آل وسلم کو ایسا رعب عطا فرمایا تھا کہ بدترین دشمن بھی آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے سامنے آنکھیں جھکانے پر مجبور ہوجاتے تھے ۔۔۔۔
تاریخ اسلام میں اسی طرح ایک اور واقعہ بھی بڑا مشہور ہے
ایک مرتبہ ابو جہل نے کسی شخص سے اونٹ خریدے ، لیکن ابوجہل طے شدہ سودے کے مطابق ان اونٹوں کی قیمت ادا کرنے میں لیت و لعل سے کام لینے لگا ۔۔۔۔۔ لوگوں نے مذاق کے طور پر اس شخص نے کہا کہ داد رسی چاہتے ہو تو محمد (صلی اللہ علیہ و آل وسلم) کو جاکر بتاو ۔۔۔۔ کفار مکہ نے سوچا کہ ابوجہل آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کو خوب جلی کٹی سنائے گا ۔۔۔۔۔ لیکن آسمان نے دیکھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آل وسلم اس اجنبی شخص کو ساتھ لے کر ابوجہل کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ اس کی رقم اسے ادا کردو تو ابو جہل نے بلا حیل و حجت اس کی پوری رقم ادا کردی ۔۔۔۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سچ کا اپنا ایک رعب ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ جو بھی سچ بولنے کی عادت اپنا لیتا ہے ۔۔۔۔ اللہ تعالی اسے خاص برہان عطا کرتے ہیں ۔۔۔۔ یہ برہان آپ کے کٹر دشمنوں پر آپ کی دھاک اور رعب قائم کردیتی ہے ۔۔۔۔۔۔ صدق اور سچائی ایک مسلمان کی اعلیٰ صفات ہیں ۔۔۔۔ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے
"اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ،،،، تقویٰ اختیار کرو ،،،، سیدھی اور سچی بات کیا کرو ،،،،، اللہ تمہارے اعمال درست کردے گا ،،،،، اور تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا ،،،،، جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی اطاعت کرے گا ،،،،، بس وہی عظیم کامیابی کا مستحق ہے”
اسی طرح ایک اور مقام پر اہل ایمان کو تقویٰ کی تلقین کی گئی ہے ۔۔۔۔ ارشاد باری ہے۔
"اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کے ساتھی بن جاو”
ہم اُس نبی (صلی اللہ علیہ و آل وسلم) کی محبوب امت ہیں ، جس نے سچ کا علم تھام کر ہر کسی سے اپنا سکہ منوایا ۔۔۔ جس نے سب کو سچائی کی تلقین کی ۔۔۔۔ جس نے سب کو راست بازی کی تعلیم دی ۔۔۔۔ یاد رکھیں کہ جھوٹ بولنا کسی کلمہ گو کیلئے ہرگز ہرگز جائز نہیں ۔۔۔۔ ویسے بھی سچ بولنا اور اس پر قائم رہنا شیوہ ایمانی بھی ہے ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سچے رسول صلی اللہ علیہ و آل وسلم کا سچا پیرو کار ہونے کا ثبوت بھی ہے ۔۔۔۔۔
آئیےآج سے ہم یہ عہد کریں کہ ہمیشہ سچ بولیں گے اور جھوٹ کو اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیں گے ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے ہم سے جو کوتاہیاں ہوچکیں ۔۔۔۔ آئیے ! ہم سب اپنی ان کوتاہیوں پر اللہ تبارک و تعالی سی سچے دل سے توبہ کریں ۔۔۔۔ خود بھی سچ پر قائم رہیں اور اپنے تمام عزیز و اقرباء کو بھی راست بازی کی تلقین کریں ۔۔۔۔ سچ بولنے کی برکتوں سے آگاہ کریں اور انہیں جھوٹ کے نقصانات بتاکر اس سے اجتناب برتنے پر راضی کریں ۔۔۔۔۔ ہمارے اس کام سے نہ اللہ ہمیں نقصانات سے بچائے گا، اللہ ہمارے ساتھ راضی بھی ہوجائے گا ۔۔۔۔۔۔۔