اسلام آباد (رائٹ پاکستان نیوز) سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہے کہ جب انہیں محسوس ہوا کہ وہ انصاف فراہم نہیں کرسکتے تو وہ خود مستعفی ہوجائیں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی علامہ طاہر اشرفی کے اُس خط کے جواب میں کہا، جو علامہ طاہر اشرفی نے چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھا تھا۔
عدالت عظمیٰ کے سینئر جج نے یہ سب ایک خط کے ذریعے لکھا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا خط
خط کے متن کے مطابق انہوں نے لکھا کہ "آئین میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کی کہ عدالت عظمیٰ کے کسی جج کو کوئی تنبیہہ کرے”
سینئر جج سپریم کورٹ نے اپنے خط میں لکھا کہ "آپ نے مجھے کاپی بھجوائے بغیر 11 اپریل کو چیف جسٹس کے نام خط لکھا، آپ نے مجھ سے وہ کلمات منسوب کیے جو میں نے تقریر کی نہ زبانی ادا کیے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ "آپ نے میری تقریر کو اسلام اور قرآن کے منافی کہا، میری تقریر آئین، اسلام اور بنیادی حقوق سے متعلق تھی”۔
عدالت عظمیٰ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے خط میں وزیراعظم کے معاون خصوصی سے کہا کہ اگر آپ نے اس موضوع پر کچھ لکھا ہے تو مجھے ضرور بھجوائیں۔
جسٹس فائز نے مزید لکھا کہ "بہترہوتا آپ مجھ سے براہ راست مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے، مجھے کسی عہدے کی ضرورت نہیں ہے، جب محسوس ہوا کہ انصاف فراہم نہیں کرسکتا تو خود مستعفی ہوجاؤں گا”۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج نے مزید کہا کہ آپ جیسے دانشوروں نے کبھی آمروں کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔
علامہ طاہر اشرفی کا جوابی خط
سینئر جج کے خط کے جواب میں علامہ طاہر اشرفی کا خط بھی سامنے آگیا، جس میں انہوں نے موقف اپنا کہ "چیف جسٹس آف پاکستان کو بطور سربراہ ادارہ آپ کو نصیحت کیلئے کہا تھا”۔
علامہ طاہر اشرفی نے لکھا کہ "خط آپ کے ویڈیو کلپ کے بعد لکھا تھا، آپ شاید اپنے ادارے کے سربراہ کو نصیحت کرنے کا حق نہیں دیتے”۔
علامہ طاہر اشرفی نے مزید لکھا کہ "قاضی کو فیصلہ غصے یا خوشی میں نہیں کرنا چاہیے، یہ خط آپ کی تحریر نہیں لگتا، جس نے بھی لکھا ہے اس کی سرزنش کریں”۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس غیر آئینی و غیر قانونی قرار، تفصیلی فیصلہ