"روہتاس قلعہ کی سیر” میں جناب محی الدین چودھری صاحب نے ماضی کی حسین یادیں تازہ کی ہیں۔ قسط نمبر 2 پیش خدمت ہے۔ آئیے محی الدین چودھری کی ساتھ ساتھ ہم بھی روہتاس قلعہ کی سیر کرتے ہیں۔
ہمارے کچھ ساتھی تو روہتاس سے دینہ کی طرف گئے اور وہاں سے براہ جی ٹی روڈ شام کے وقت جہلم اور پھر وہاں سے آدھے گھنٹے میں گھر پہنچ گئے۔
قلعہ روہتاس سے واپسی کا مہماتی سفر
مگر ہمارا سرپھرا گروپ جس کی راہنمائی ارشاد صاحب کر رہے تھے اس نے نالہ گھان کے پاٹ کے ساتھ ساتھ چل کر جہلم کا رخ کیا۔ نالہ گھان میں سے گزرنا ایک نہایت سخت مہم کے مترادف تھا۔
نالے میں جگہہ جگہہ کیچڑ اور پانی تھا، کئی جگہہ پر تو درختوں کی ٹوٹی ہوئی شاخوں نے رستہ روکا۔ دونوں کنارے بہت اونچے تھے اور ان پر گھنے جنگلی درخت آگے ہوئے تھے۔
پہاڑی نالہ سیدھ میں تو بہتا نہیں وہ کبھی دائیں اورکبھی بائیں کوبل کھاتا ہوا جاتا تھا اور ہم اس پیچ در پیچ رستہ پر چلنے پر ہی مجبور تھے۔ بابو سلیم تو گبھرا چکے تھے انہوں نے واپس لوٹ جانے کا مشورہ بھی دیا۔
مگر اب واپس لوٹنا ایک اور حماقت ہوتی۔ بالآخر ہم ان رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے مغرب کی اذان کے وقت ملوٹ سے جہلم کی طرف جانے والے رستے پر پہنچ جانےمیں کامیاب ہو گئے۔
جی اسیں آئے آن تے، جہلم جانڑا اے

جب نالہ گھان سے نکل رہے تھے تو چند بزرگ ادھر سے گذرے انہوں نے ہم نے پوچھا کہ ” بچو کہاں سے آئے ہو” ہمارے ساتھی بابو سلیم جو اس سفر سے سخت بیزار ہو چکے تھے۔
انہوں نے جواب دیا” جی اسیں آئے آں، تے جہلم جانڑا اے” ان میں سے ایک بزرگ نے ہنس کرجواب دیا ” پتر واقعی تسی تھک گئے او، ” اور باقی بزرگ بھی مسکراتے ہوئے چلے گئے۔ بابو سلیم کا یہ ڈائیلاگ”جی اسیں آئے آن تے، جہلم جانڑا اے” آج تک ہمارے دوستوں میں زبان زد عام فقرہ ہے۔
نالہ گھان کا سفر اپنی جگہہ ایک مہم تھی، اب ہم ایک کچی سڑک پر تھے جو جہلم چھاؤنی تک جارہی تھی۔ اس زمانہ میں بجلی بھی نہیں تھی، سڑک پر جا بجا ریت تھی اور یہ راستہ ہم سب کے لئے نامعلوم تھا.
ہم اندھیرے میں گرتے پڑتے عشاء کے وقت جہلم چھاونی تک جا ہی پہنچے۔ کچھ دوستوں نے کہا کہ بھوک بہت لگی ہے۔ اس پرمحمد حسین نےمشورہ دیا کہ” بابا کا ہوٹل شاید ابھی کھلا ہو، وہاں چلتےہیں۔”
ہوٹل والے نیک دل بابا جی

یہ ہوٹل راجہ بازار جہلم میں واقع تھا، اور بابا بہت عمدہ اور سستا کھانا دینے کے معاملہ میں بھی مشہور تھا۔ جب ہم پہنچے تو اتفاق سے بابا ہوٹل بند کرنے کی تیاری میں مصروف تھا۔ جب ہماری وجہ سے بابا نے ملازم لڑکوں کو روک لیا۔
تندور میں تازہ روٹیاں لگوائیں اور آلو گوشت کا سالن گرم کر کے کھلوایا۔ بھوک واقعی بہت زیادہ محسوس ہورہی تھی، ہم نے ڈٹ کر کھانا کھایا، خصوصاً شمشاد بٹ اور ماسٹر ارشاد صاحب نے کچھ زیادہ ہی ڈٹ کر کھایا۔
بابا ہوٹل والے نے کہا "واقعی آج تم لوگ بھوک کا مظاہرہ کر رہے ہو۔ بابا نے ساتھ والے ہوٹل سے، اپنی طرف سے چائے منگوا کر ہم سب دوستوں کو پلوائی۔ چائے اچھی تھی، واقعی تھکن دور ہوگئی۔
واپسی کے سفر پر دلچسپ تبصرے

کھانا کھانے کے بعد ہم نے گاؤں کا سفر شروع کیا اور رات بارہ بجے کے بعد گاؤں پہنچے اور واقعی میں نے تو سکون کا سانس لیا۔ دوسرے دن سب اکٹھے ہوئے تو واپسی کے سفر پر بہت دلچسپ تبصرہ ہوا۔ خصوصاً ارشاد صاحب کی راہنمائی پر سب کو اعتراض تھا۔
ایک دوست نے ارشاد صاحب کو بتایا "ارشاد تو نے سنی سنائی باتوں پر غلط راستہ اختیار کرلیا ورنہ ریسٹ ہاؤس قلعہ روہتاس سے ایک کچی سڑک ملوٹ کو جاتی ہے اس پر ملوٹ جاتے تو نالہ رہتاس کے پیچ در پیچ اور دشوار گزار سفرسے بچ جاتے۔”
مگر اب اس غلطی کا کوئی مداوا نہیں تھا۔ کچھ بھی ہو یہ مہماتی سفر ایک یادگار سفر تھا جو ساٹھ سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک ہمارے ذہن میں تازہ ہے۔ یہ اور بات ہے دوست ایک ایک کر کے اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں۔
پہلوان شاہ نے ہمیں اندھا قرار دیدیا

جب پیر شاہ وسن والا قصہ سید پہلوان شاہ صاحب کو سنایا گیا تو انہوں نے ساری داستان سن کر ایک دلچسپ توجیہ پیش کی۔
پہلوان شاہ نے کہا "اندھے تو تم سارے ہو گئے تھے، جو نالہ گھان میں گھومتے رہے اور پھر جہلم چھاؤنی تک سائیکلوں سے بار بار گرتے رہے۔” لیکن کوئی بھی شاہ جی کے پوائنٹ آف ویو سے متفق نہ ہوا۔
وہ دوست جنہوں نے اس سفر میں ساتھ دیا تھا ان میں سے صرف میں، محمد حسین اور ماسٹر ارشاد بقید حیات ہیں۔ شمشاد بٹ، محمد عارف، بابو سلیم ، میاں شوکت اور اصغر اس جہان فانی کو خیر باد کہہ چکے۔
صرف یادیں ہیں جو باقی ہیں، خداوند کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمارے عزیز دوستوں کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائیں، آمین
نوٹ: اس یادگار سفر کی کہانی میں اپنے عزیز دوست ماسٹر محمد حسین کی فرمائش پر ہی لکھ رہا ہوں)