سابق رکن قومی اسمبلی کشمالہ طارق کی گاڑی کے حادثہ نے گزشتہ روز چار گھروں پر قیامت ڈھادی۔ اس حادثہ کے بعد پاکستان میں بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر یو اے ای طرز کی سخت سزائیں دینے اور جرمانے کرنے کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔
کشمالہ طارق کی گاڑی سے ہونے والے حادثے نے قیامت ہی تو برپا کردی تھی، جس میں شاہراہوں کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھنے والے طبقے نے چار غریب گھروں کے امیدوں کے چراغ ہمیشہ کیلئے گُل کردیے۔
اس حادثے کا مقدمہ درج تو ہوگیا ہے ۔ لیکن اس مقدمے کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس کا عکس پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ کے آئینے میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن میرا آج کا موضوع محض یہ حادثہ نہیں۔ ہمارا موضوع یہ بھی نہیں کہ اس حادثے کے ذمہ دار کشمالہ طارق، ان کا بیٹا ، شوہر یا ڈرائیور ہیں یا کوئی اور؟
آج کا موضوع تو حادثات کی روک تھام اور انسانی جانوں کو بچانے کیلئے متحدہ عرب امارات کا ماڈل آپ کے سامنے لانا ہے ۔ یہ شاہراہوں پر ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرنے والوں کو دی جانے والی سزاوں اور جرمانوں کا ماڈل ہے۔
پاکستان اور یو اے ای میں حادثات کا تقابل
آپ یہ جرمانے اور سزائیں سنیں گے تو ممکن ہے کہ آپ اِنہیں وحشیانہ سزاوں سے تعبیر کریں ۔ یہ سزائیں وحشیانہ ہیں یا نہیں ۔ لیکن آپ ان سزاوں کے اثرات دیکھیں کہ پاکستان میں سالانہ حادثات میں سینتیس ہزار افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔
اس مقابلے میں یو اے ای میں ان وحشیانہ سزاوں کی وجہ سے حادثات میں مرنے والوں کی سالانہ تعداد سات سو کے لگ بھگ ریکارڈ کی جاتی ہے ۔ یعنی یو اے ای کا ٹریفک سسٹم پاکستان سے پچاس گنا یا پانچ ہزار فیصد بہتر ہے۔
یو اے ای کی "وحشیانہ” سزائیں
آئیے! آپ کو بتاتے ہیں ۔ کہ یو اے ای کی یہ وحشیانہ سزائیں کیا ہیں ۔ جن کی بدولت وہاں کسی شہزادے کو بھی جان بوجھ کر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی جرات نہیں ہوتی، تو سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ متحدہ عرب امارات میں ٹریفک سزاوں کا بڑا ڈائنامک سسٹم بنایا گیا ہے۔
اس ڈائنامک سسٹم کو آپ صرف ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں ۔ کہ اگر آپ امارات میں رہتے ہیں تو آپ کو کسی قسم کا انکم ٹیکس یا پراپرٹی ٹیکس تو نہیں دینا پڑتا ۔ البتہ ٹریفک اور شہری قوانین کی خلاف ورزی پر ہونے والا جرمانہ یا سزا آپ کی چیخیں نکال دیتا ہے، اور یہ چیخیں سب کی نکلتی ہیں چاہے کوئی عہدے اور مرتبے کے لحاظ سے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو؟
یو اے ای مین ٹریفک جرمانے
مثال کے طور پر بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر 5 ہزار اماراتی درہم (یعنی دو لاکھ اٹھارہ روہے) جرمانہ دینا پڑتا ہے ۔ مقررہ حد سے کم رفتار پر گاڑی چلانے پر بھی چار سو اماراتی درہم (یعنی ساڑھے سترہ ہزار روپے) جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
مقررہ حد سے زیادہ رفتار پر گاڑی چلانے پر تین ہزار اماراتی درہم (یعنی ایک لاکھ اکتیس ہزار روپے) جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے ۔ نمبر پلیٹ کے بغیر گاڑی چلانے پر تین ہزار اماراتی درہم (یعنی ایک لاکھ اکتیس ہزار روپے) جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
ٹریفک سگنلز پر سرخ اشارہ توڑنے پر بھی ایک لاکھ اکتیس ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے ۔ اس طرح گاڑی چلانا ، جس سے ڈرائیور کی اپنی یا کسی دوسرے کی گاڑی الٹ جائے کا خطرہ ہو، اُس پر بھی ایک لاکھ اکتیس ہزار روپے جرمانہ ہے۔
اس طرح گاڑی چلانا ، جس سے کسی انسانی جان یا پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو ، اس پر دو ہزار درہم جرمانہ دینا پڑتا ہے ۔ اشارہ دیے بغیر گاڑی کو اچانک کسی جانب موڑنے پر ایک ہزار درہم (یعنی اکتالیس ہزار رروپے) جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
قانون سے بھاگنے کی سزا
سارجنٹ کی بات نہ ماننے یا سارجنٹ سے بھاگنے کی صورت میں ایک ہزار درہم (یعنی اکتالیس ہزار روپے) تک جرمانہ کیا جاتا ہے۔ یہ جرمانے صرف چار پہیوں والی گاڑی چلانے والوں کو ہی نہیں ہوتے، بلکہ موٹر بائیکس چلانے والوں کو بھی اسی طرح کے سخت جرمانے کیے جاتے ہیں۔
مثال کے طور ہیلمٹ نہ پہننے پر بائیکرز کو پانچ سو درہم (یعنی اکیس ہزار روپے جرمانہ) ادا کرنا پڑتا ہے ۔ یوں دو سو کے لگ بھگ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کی ایک فہرست ہے۔
اس فہرست میں جرمانے کی کم سے کم شرح تین سو درہم (یعنی تیرہ ہزار روپے) سے شروع ہوکر زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار اماراتی درہم (یعنی دو لاکھ اٹھارہ ہزار روپے) تک جاتی ہے۔
ٹریفک جرمانوں کی کیٹیگریز
ان تمام جرمانوں کی مختلف کیٹیگریز ہیں ۔ جیسا کہ حد رفتار کی خلاف ورزیاں ۔ نمبر پلیٹس کی خلاف ورزیاں ۔ خطرے میں ڈالنے والی خلاف ورزیاں ۔ بڑے ٹرکوں اور گاڑیوں کی خلاف ورزیوں کی کیٹیگریز ہیں۔
سارجنٹ کے احکامات کی خلاف ورزیاں ۔ غلط پارکنگ اور اوورٹیکنگ کی خلاف ورزیاں ۔ رجسٹریشن اور پرمٹس کی خلاف ورزیاں ہیں ۔۔ اسی طرح ہارن بجانے کی خلاف ورزیاں ۔ ٹریفک سائنز کی خلاف ورزیوں کی کیٹیگریز بھی ہیں۔
پیدل چلنے والوں یا سڑک کراس کرنے والوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں ۔ گاڑی کے اندر ریڈیو یا موبائل وغیرہ سننے کی خلاف ورزیاں ۔ گاڑی میں لگائے گئے آلات کی خلاف ورزیوں کی کیٹیگریز ہیں۔
گاڑی پر وزن لادنے کی حد کی خلاف ورزیاں ۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور گاڑی چلانے کی تربیت دینے والی اجازتوں کی خلاف ورزیاں اور ماحول کی خلاف ورزیوں کی کی کیٹیگریز الگ ہیں۔
جرمانوں کے علاوہ دیگر سزائیں
زیادہ جرمانے والے خلاف ورزیاں سنگین جرائم کے زمرے میں آتی ہیں ۔ ان پر دو ماہ کیلئے گاڑی بند بھی کردی جاتی ہے ۔ ہر خلاف ورزی پر لائسنس پر بلیک پوائنٹس بڑھتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر آپ کا لائسنس منسوخ کردیا جاتا ہے۔
یوں صرف دبئی پولیس سالانہ اربوں روپے جرمانے کی مد میں اکٹھا کرلیتی ہے ۔ اسی طرح دیگر شہری قوانین کی خلاف ورزی پر بھی سنگین جرمانہ عاید کیا جاتا ہے۔
اب ایسا بھی نہیں کہ اربوں روپے جرمانے کے بعد شہری مکمل طور پر راہ راست پر آجاتے ہیں۔ لیکن ان سزاوں اور جرمانوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یو اے ای میں حادثات کی شرح بھی کم ہے اور ان حادثات میں مرنے والوں کی تعداد بھی پاکستان کی طرح ہولناک نہیں ہے۔
پاکستان میں مزید کیا کیا جائے؟
پاکستان میں بڑی گاڑی پاگلوں کی طرح چلانے والے نواب زادوں کو اگر شتر بے مہار بننے سے روکنا ہے، تو یو اے ای ماڈل کی سخت سزاوں اور جرمانوں کے ماڈل کو اپنا ہوگا۔ اس کے علاوہ درج زیل کام بھی ضرور کریں۔
- شاہراہوں پر ویجیلینس سسٹم کو سخت کیا جانا چاہیے۔
- سیف سٹی کیمروں کو درست اور فعال بنایا جائے۔
- ٹریفک پولیس کو زیادہ اختیارات دیے جائیں (یعنی ایمپاور کیا جائے)۔
- سزاوں کا اطلاق اور جرمانوں کی وصولی پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے۔
- شہریوں کو سڑک پر گاڑی چلانے کے آداب کی تربیت دی جائے۔
- لائسنسنگ کے نظام کو مزید سخت کیا جائے۔
اس کے علاوہ وہ سب کچھ کیا جائے جو جدید دنیا اپنی شاہراہوں پر سفر کو محفوظ بنانے کیلئے کررہی ہے، تاکہ پاکستان میں بھی سڑکیں قتل گاہ نہ بنیں۔
یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ بگڑے نوابزادے اور نوابزادیاں قاتلوں کی طرح سڑکوں پر دندناتی نہ پھریں ۔ اور غریبوں کی امیدوں کے چراغوں کو اپنی اداوں کے جھونکوں سے اڑاتی اور بجھاتی نہ پھریں۔