متحدہ عرب امارات نے اپنے قیام کے تقریبا نصف صدی بعد غیرملکیوں کیلئے شہریت کھول دی ہے۔ شہریت کیلئے اپلائی کرنے سے پہلے یہ ضرور پڑھ لیں کہ یو اے ای کی بے مثال ترقی کا اصل راز کیا ہے؟ اور کیا آپ اس راز پر پورا بھی اترسکیں گے یا نہیں؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یو اے ای یعنی متحدہ عرب امارات تیل سے مالا مال ایک خوشحال خلیجی ریاست ہے۔ ممکن ہے کہ آپ بھی یہی سمجھتے ہوں کہ متحدہ عرب امارات کی ترقی کا راز تیل کی دولت ہے، تو یہ بات درست نہیں۔
تیل نہیں متبادل ذرائع
سب سے پہلے ایک بات ضرور سمجھ لیں کہ یو اے ای کی جی ڈی پی میں تیل کی پیداوار کا حصہ صرف سنگل ڈجٹ میں ہے۔ یعنی صرف چند فیصد۔ یہ یقینا ایک حیران کن بات ہے کہ یو اے ای اپنی قدرتی ذرائع پر انحصار ہی نہیں کرتا۔
اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات ایک مکمل ٹیکس فری ریاست بھی ہے۔ یعنی پاکستان جیسے ممالک کی طرح وہاں یہ رونا بھی نہیں کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے، اس لیے معیشت ترقی نہیں کرتی۔
سوال یہ ہے کہ اس ملک کی حیران کن معاشی ترقی کا راز کیا ہے؟ یہ راز جاننا بالخصوص ان لوگوں کیلئے بہت ضروری ہے، جو یو اے ای کی شہریت کیلئے اپلائی کرنا چاہتے ہوں۔
سسٹم، یو اے ای کی ترقی کی بنیادی اساس
یو اے ای کی ترقی اور خوشحالی بنیادی طور پر اُس سسٹم کی بدولت ہے، جو گزشتہ نصف صدی کے دوران وہاں ڈویلپ کیا گیا ہے۔ اور کوئی بھی شخص اس سسٹم سے باہر نہیں نکل سکتا۔
اب آپ یہی دیکھ لیں کہ یو اے ای میں رہنے والے کل افراد کی تعداد لگ بھگ ایک کروڑ ہے، جن میں سے صرف دس لاکھ مقامی عرب باشندے قانونی شہریت رکھتے ہیں۔
یو اے ای کی نوے فیصد آبادی جنوبی ایشیا سمیت دنیا بھر سے روزگار کیلئے آنے والے غیر اماراتی لوگوں پر مشتمل ہے، لیکن خطے کے دیگر عرب ممالک کے برعکس متحدہ عرب امارات کا سسٹم بہت مضبوط ہے۔
یہ سسٹم اتنا مضبوط ہے کہ اس سے سرتابی کرنے کی جرات دس لاکھ خلیجی شہری رکھتے ہیں، اور نہ ہی یہ جسارت نوے لاکھ غیر ملکی باشندے کرتے ہیں۔
ٹیکس نہیں جرمانہ
متحدہ عرب امارات کا یہ ڈائنامک سسٹم کیا ہے؟ آپ یہ صرف ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں، یعنی یو اے ای میں آپ کو کسی قسم کا انکم ٹیکس یا پراپرٹی ٹیکس نہیں دینا پڑتا، لیکن قوانین کی خلاف ورزی پر ہونے والا جرمانہ آپ کی چیخیں نکال دے گا۔
مثال کے طور پر بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر 5 ہزار اماراتی درہم (یعنی دو لاکھ اٹھارہ روہے) جرمانہ دینا پڑتا ہے۔ مقررہ حد سے کم رفتار پر گاڑی چلانے پر چار سو اماراتی درہم (یعنی ساڑھے سترہ ہزار روپے) جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
مقررہ حد سے زیادہ رفتار پر گاڑی چلانے پر تین ہزار اماراتی درہم (یعنی ایک لاکھ اکتیس ہزار روپے) جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ یوں دو سو کے لگ بھگ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کی ایک فہرست ہے۔
اس فہرست میں جرمانے کی کم سے کم شرح تین سو درہم (یعنی تیرہ ہزار روپے) سے شروع ہوکر زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار اماراتی درہم (یعنی دو لاکھ اٹھارہ ہزار روپے) تک جاتی ہے۔
جرمانے سے چلنے والی ریاست
یوں صرف دبئی پولیس سالانہ اربوں روپے جرمانے کی مد میں اکٹھا کرلیتی ہے۔ اسی طرح دیگر شہری قوانین کی خلاف ورزی پر بھی سنگین جرمانہ عاید کیا جاتا ہے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ اربوں روپے جرمانے کے بعد شہری مکمل طور پر راہ راست پر آجاتے ہیں۔
دوسری جانب جرمانے کی وصولی کے سخت نظام کی وجہ سے اتنا ضرور ہوتا ہے کہ شہری ہر ممکن طور پر خود ہی کوشش کرتے ہیں کہ وہ قوانین کے مطابق چلیں۔
اس طرح یو اے ای میں رہنے والے اُس نظام میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں، جو کسی ریاست کو ایک خوشحال ریاست بنادیتا ہے۔ یوں یہ واحد ریاست ہے جو ٹیکس کی بجائے جرمانے پر چل رہی ہے۔
کیا آپ اس نظام میں ڈھل سکتے ہیں؟
اگر آپ اس نظام میں ڈھل سکتے ہیں اور اگر آپ قوانین کی مکمل پاسداری کرسکتے ہیں تو پھر متحدہ امارات کی شہریت کے دروازے آپ پر کھلے ہیں۔ یعنی ترقی ، کامیابی اور خوشحالی کے دروازے آپ پر کھلے ہیں۔
اہلیت کی شرط صرف اتنی ہے کہ آپ کو ایک ٹیلنٹڈ ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، آرٹسٹ تخلیق کار یا دانشور ہونا چاہیے۔ اگر آپ اس اہلیت پر پورا اترتے ہیں تو مخصوص پروسیجر سے گزر کر آپ یو اے ای کے شہری بن سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ آپ سرمایہ کاری کرکے بھی متحدہ عرب امارات کی اس پیشکش سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
آپ کیلئے ہماری دعا
میری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کیلئے آسانیاں پیدا فرمائیں اور آپ کو دوسروں میں آسانیاں بانٹنے والا بنائیں، آمین