Ultimate magazine theme for WordPress.

میر ظفر اللہ خان جمالی، پیدائش، تعلیم، خاندان، سیاسی کیریر

تحریر: جبار مرزا

401
جبار مرزا

میر ظفر اللہ خان جمالی بھی داغ مفارقت دے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ہمارا 42 برسوں کا ساتھ تھا۔

پیدائش اور تعلیم

میر ظفراللہ خان جمالی یکم جنوری 1944 ء کو میر شاہنواز جمالی کے ہاں روجھان جمالی ضلع نصیر آباد بلوچستان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گاؤں سے جبکہ ایف ایے لارنس کالج گھوڑا گلی کیا۔ وہ راوین تھے، ایچیسن کالج سے بھی پڑھے تھے۔ بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے جبکہ تاریخ میں ایم اے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا۔ میر ظفراللہ جمالی کو بلوچی، براہوی، انگریزی، اردو، سندھی اور پنجابی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔
میر جعفر خان جمالی تحریک پاکستان کا معتبر حوالہ اور قائد اعظم کے قریبی ساتھی تھے، میر جعفر خان جمالی میر ظفراللہ خان جمالی کے تایا تھے۔

پیپلز پارٹی کے بانی رکن

ذوالفقار علی بھٹو نے جب یکم دسمبر 1967ء میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو اس سے چند دن پیشتر وہ روجھان جمالی میں میر جعفر خان جمالی سے ملنے گئے اور گزارش کی کہ وہ ایک سیاسی جماعت بنانے جارہے ہیں، آپ کے خانوادے کا ایک فرد لینے آیا ہوں۔

میر جعفر خان جمالی نے کہا کہ "ہم آپ کو خالی ہاتھ نہیں بھیجیں گے”، یوں تایا نے اپنے بھتیجے میر ظفراللہ خان جمالی کو ذوالفقار بھٹو کے حوالے کردیا۔

بلوچستان کی وزارت اعلیٰ سے وزارت عظمیٰ تک

اس طرح میر ظفراللہ خان جمالی کا شمار پاکستان پیپلز پارٹی کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ وہ لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پیپلز پارٹی کے تاسیسی اجلاس میں شریک تھے۔ البتہ وہ 1970ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا انتخاب ہار گئے تھے۔

میر ظفراللہ خان جمالی دو مرتبہ بلوچستان کے وزیراعلی رہے، جنرل ضیاء الحق کے عبوری دور میں کواپریٹو کے وزیر مملکت اور سینٹ کے ممبر بھی رہے۔

محمد خان جونیجو کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والے ایوان میں واپڈا کے وزیر رہے۔ میر ظفراللہ جمالی 21 نومبر 2002ء سے 26 جون 2004 ء تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔

جمالی تو شلوار قمیض پہنتا ہے

میر ظفر اللہ خان جمالی

یہاں بھی ایک عجیب واقعہ ہوا کہ جب بلوچستان کے مسلسل گلے شکوے، نظر انداز کیے جانے اور محرومیوں کے تذکرے عام ہوئے تو فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم بلوچستان سے لیا جائے۔

اس سلسلے میں جب ایجنسیوں نے میر ظفراللہ خان جمالی کا نام پیش کیا تو جنرل پرویز مشرف نے کہا "وہ شلوار قمیص پہنتا ہے، وہ نہیں کوئی اور بتاؤ”۔ اس پر پرویز مشرف کو بتایا گیا کہ شلوار قمیص پاکستان کا قومی لباس ہے۔ پاکستان کے لئے اس خانوادے کی سب سے زیادہ خدمات ہیں۔

ڈاکٹر عبدالقدیر کی امریکہ حوالگی سے انکار

خیر جمالی وزیر اعظم تو بن گئے مگر ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جب امریکہ کے حوالے کرنے لگے تو بطور چیف ایگزیکٹو جمالی صاحب نے ڈاکٹر خان کی "ایگزٹ”  Exit پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ پرویز مشرف نے بہت کہا مگر جمالی نہ مانے اور یوں امریکہ ناراض ہوگیا۔

ہنگامی طور سے پھر چودہری شجاعت کو وزیر اعظم بنادیا گیا، اٹک میں ضمنی انتخاب ہوا اور شوکت عزیز وزیر اعظم ہو گئے !

میر ظفراللہ خان جمالی والی بال اور فٹ بال کے اچھے کھلاڑی تھے، ہاکی ٹیم کی قیادت بھی کی۔

نواز شریف نے کہا "دفع کرو سُو”

میر ظفر اللہ خان جمالی

1993ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کیلئے آزاد حیثیت میں کامیاب ہوکر اسلام آباد آئے تو میں نے کہا کہ نواز شریف کو آپ کی ضرورت ہے۔ آپ ان کے ساتھ چلے جائیں۔

میر ظفر اللہ خان جمالی بولے کہ "اُن کے پاس گیا تھا، رائے ونڈ میں شہباز شریف ملے، مدعا بیان کیا اور کہا کہ اجداد کا تعلق پاکستان کی خالق جماعت سے رہا، میں آزاد ممبر اسمبلی منتخب تو ہوا مگر آپ کے ساتھ مسلم لیگ میں رہنا چاہتا ہوں”۔

شہباز شریف نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ "آئیں نواز شریف صاحب سے ملتے ہیں”۔ نواز شریف ایک دوسرے ڈرائنگ روم میں چودھری شجاعت کے ساتھ بیٹھے تھے۔

شہباز شریف نے وہاں جاکر دروازہ کھولا میں سائڈ پر کھڑا تھا اور کہا کہ "بھاجی جمالی آئے جے”۔ نواز شریف نے پوچھا کہ "کیہڑا جمالی (یعنی کون سے جمالی)؟”۔ نواز شریف کا خیال تھا میر جعفر خان کا بیٹا تاج جمالی ہوگا۔

جب شہباز نے کہا کہ "بھاجی! میر ظفراللہ خان جمالی” تو نواز شریف بولےکہ "دفع کروس”۔ میر ظفراللہ خان جمالی نے مجھے انتہائی دل گرفتگی کے عالم میں کہا تھا کہ "جبار مرزا ! میں نے یہ جملہ اپنے کانوں سے سنا تھا، اس پر شہباز خاصا پریشان اور پشیمان بھی ہوا مگر میں اسے دلاسہ دے کر واپس اسلام آباد آگیا”۔ آہ ! آج ایک دنیا چھوڑ گیا دوسرا ملک اور تیسرا جیل میں ہے ! بدلتا ھے رنگ آسماں کیسے کیسے۔

یہ بھی پڑھیں! یومِ اقبال اور کلامِ اقبال کی بے حرمتی

Leave A Reply

Your email address will not be published.